اشیائے صَرف کا زمانہ گیا؟

255

دنیا بھر میں چھانٹیوں کا موسم چل رہا ہے۔ اور چل کیا رہا ہے، اب تو چلتا ہی رہتا ہے۔ اس کا سبب جاننا کچھ دشوار نہیں۔ ایک طرف تو خود کاریت ہے یعنی بیش تر کام مشینیں کر رہی ہیں اور دوسری طرف بعض بڑی منڈیاں تیزی سے سُکڑ رہی ہیں۔ یورپ ہی کی مثال لیجیے۔ یورپ میں شرحِ پیدائش خطرناک حد تک گِرچکی ہے۔ اِس کے نتیجے میں اشیائے صَرف کی مارکیٹ بھی متاثر ہوئی ہے۔ یورپ میں بھی صنعتی اداروں کے لیے ملازمین کی تعداد برقرار رکھنا بہت بڑا دردِ سر ہے۔ خام مال اور توانائی وغیرہ کے مسائل بہ طریقِ احسن حل نہ ہو پارہے ہیں تو برق گرتی ہے انسانی وسائل پر۔
بڑے اور ترقی یافتہ ممالک میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ سیاسی معاملات کی سمت متعین کرنے میں نمایاں کردار کا حامل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ شدید غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز کی بدولت پیداواری عمل آسان ہوتا جارہا ہے۔ اب آجر کے لیے ناگزیر ہے کہ افرادی قوت میں کمی یقینی بنائے تاکہ منافع کی شرح بلند ہوسکے۔
ایک دور تھا کہ دنیا بھر میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں اشیائے صَرف کی طلب بھی بڑھ رہی تھی۔ کئی ترقی یافتہ ممالک نے اس صورتِ حال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور کئی منڈیاں ہتھیائیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی منڈیوں کو ہتھیانے کی صورت میں اِن ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں مستحکم تر ہوتی گئیں۔
اب بہت سے ممالک میں شرحِ پیدائش نمایاں طور پر کم ہوچکی ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا سادہ لوحی ہوگی کہ اشیائے صَرف کی طلب میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ سچ یہ ہے کہ ایسا ہو رہا ہے۔
بہت سے ممالک میں خدمات پر خرچ کی جانے والی رقم اشیاء پر خرچ کی جانے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ اشیائے صَرف کی طلب میں رونما ہونے والی کمی کا ایک سبب تو شرحِ پیدائش میں کمی ہے اور دوسرا بڑا سبب معمر افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔ فیملی شروع کرنے میں نئی نسل کی دلچسپی خطرناک حد تک کم ہے۔ یورپی یونین کی آبادی اندازوں سے کہیں زیادہ رفتار سے گھٹ رہی ہے۔ چین، جاپان اور کوریا کا بھی یہی معاملہ ہے۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے بتایا ہے کہ بنگلا دیش، ویتنام، تیونس، کولمبیا اور 127 دیگر ممالک میں شرحِ پیدائش اِتنی گرچکی ہے کہ مرنے والوں کی کمی پورا کرنا بھی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ صرف افریقا میں صحرائے صحارا کے زیریں علاقے کے ممالک میں آبادی واقعی بڑھ رہی ہے۔
معاشرے ایک اہم ادارے خاندان کی موت واقع ہو رہی ہے۔ نئی نسل بروقت شادی کرکے صاحبِ اولاد ہونے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہی۔ ’’فیملی شروع کرنے‘‘ سے گریز کے نتیجے میں معاشرتی خرابیوں کے ساتھ ساتھ معاشی الجھنیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ جو لوگ فیملی شروع کرتے ہیں وہی تو اشیائے صَرف کے دیرپا صارفین ہوتے ہیں۔ پس ماندہ ممالک میں فیملی شروع کرنے کا رجحان قدرے توانا ہے تاہم وہ اشیائے صَرف کی مارکیٹ میں کلیدی کردار ادا نہیں کرتے۔ قدرے بلند اور بہتر فی کس آمدنی والے ممالک میں فیملی شروع کرنے سے گریز دنیا بھر میں اشیائے صَرف کی تیاری اور فروخت کے عمل پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
بیش تر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں نئی نسل کے جو لوگ میاں بیوی کے بجائے ’’پارٹنرز‘‘ کی حیثیت سے رہتے ہیں وہ فیملی شروع کرنے یعنی بچے پیدا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ شادی دیر سے کیے جانے اور فیملی شروع کرنے سے گریز کے نتیجے میں مکانات کی تعمیر بھی گھٹ رہی ہے۔ یوں تعمیراتی صنعت کے علاوہ گھروں کے لیے درکار ریفریجریٹرز، فرنیچر، قالین، ڈیکوریشن پیس، ٹی وی، کمپیوٹرز، لائٹس، ائر کنڈیشنرز، کچن آئٹمز اور دیگر اشیائے صَرف کی طلب بھی گھٹ رہی ہے۔ لوگ اشیائے صَرف سے زیادہ خدمات سے مستفید ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں فیکٹریز پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ یورپ میں اس معاملے کو کسی حد تک کنٹرول کرلیا گیا ہے مگر بعض ممالک اب تک مینوفیکچرنگ سیکٹر کے استحکام پر جی رہے ہیں۔ ان میں چین کے علاوہ جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، برازیل اور بھارت نمایاں ہیں۔ اِن ممالک میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کی شدید کمزوری سے کم و بیش ایک ارب افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ معاشرتی بگاڑ کا اندازہ آپ خود لگائیے۔
چین میں بھی خدمات کے شعبے کو زیادہ طاقتور بنانے پر توجہ دی جارہی ہے تاہم وہاں اب بھی مینوفیکچرنگ سیکٹر کو سمیٹنے اور اُس پر کم متوجہ ہونے کی بات کرنے والوں کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ امریکا کا بھی ہے۔
اشیائے صَرف اپنا وجود تو نہیں کھو بیٹھیں گی مگر یہ طے ہے کہ اب معیشتوں میں اُن کا کردار کلیدی نہیں رہے گا۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی ملازمتیں معیشت کا رخ متعین نہیں کریں گی۔ افریقا اور جنوبی ایشیا میں اشیائے صَرف کی طلب اب بھی توانا ہے مگر باقی دنیا تو خدمات کی طرف جُھک گئی ہے۔
اشیائے صَرف کی گھٹتی ہوئی طلب بحری تجارت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ یورپ، شمالی امریکا اور مشرقی ایشیا کی بندرگاہوں کی گہما گہمی بھی تیزی سے متاثر ہو رہی ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں کتنی بے روزگاری پیدا ہوگی۔
کم اجرت والے ممالک سے سستی اشیائے صَرف لے کر دنیا بھر میں پہنچانے والے کنٹینر شپس اپنی وقعت کھو رہے ہیں۔ نئی عالمگیریت تیزی سے ابھر رہی ہے جس کی نوعیت ڈجیٹل ہے۔ اشیائے صَرف کو ایک طرف ہٹاکر خدمات فیصلہ کن کردار ادا کر رہی ہیں۔
(دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام کے لیے یہ مضمون مارک لیوِنسن نے تحریر کیا ہے جو ماہرِ معاشیات، تاریخ دان اور صحافی ہیں۔)