تعمیری ادب کے تقاضے اور اس کے اثرات

318

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اس کی تخلیق کے مراحل کو قرآن وسنت میں بیان کیا گیا ہے اور پھر آج کی میڈیکل سائنس نے اس میں بہت ترقی کی ہے تخلیق انسا نی کا کیمیائی ارتقاء دیکھا جائے تو وہ مٹی ، پانی ’’طین‘‘ ’’طین لازب‘‘ ’’ صلصال من حمّاء مسنون‘‘ ’’صلصال کا لفخار‘‘ اور ’’سلالۃ من طین‘‘ کے مراحل سے گزر کر انسان کے جسم کو تیار کیا گیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں روح پھونکی اور وہ ایک خوبصورت شکل کا انسان بن گیا۔ پھر اس انسان کی نسل کو چلانے کے لیے اللہ رب العزت نے آدم ؑ کی پسلی سے اماں حوا کو پیدا کیا تاکہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھ سکیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کریں اور ایک دوسرے کے لیے تسکین کا باعث ہوں پھر ان دونوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کی نسل چلائی اور تمام انسانوں کو ایک طریقہ کار کے مطابق ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا سورۃ المؤمنون میں اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کے دوسرے مرحلے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی کے ٹھیکرے ’’سلالۃ من طین‘‘ سے پیدا کیا پھر ہم نے اس کو ایک ’’نطفہ‘‘ کی شکل میں محفوط جگہ پر پہنچایا، پھر نطفہ کو منجمد خون ’’علقہ‘‘ بنایا پھر اس منجمد خون کو گوشت کا ایک ٹکڑا ’’مغضۃ‘‘ بنایا، پھر اس ٹکڑے سے ہڈیاں ’’عظاما‘‘ پیدا کیں، پھر ان ہڈیوں پر گوشت ’’لحما‘‘ چڑھایا پھر ہم نے تخلیق کے ایک دوسرے مرحلے سے گزار کر ’’ ثم انشأناہ خلقاً آخر‘‘ پیدا کیا پس برکت والا ہے اللہ جو سب سے عمدہ پیدا کرنے والا ہے یہاں انسان کی نسل کو بڑھانے کا دوسرا مرحلہ ذکر ہو اہے۔

اب یہ انسانی جسم مادہ اور روح کے مرکب کی صورت میں دنیا میں آجاتا ہے۔ اس انسانی جسم کو اللہ تعالیٰ نے کچھ ظاہری اور کچھ باطنی قوتیں عطاء کی ہیں جس کے ذریعے وہ علم حاصل کرتا ہے اور باطنی قوتوں کے ذریعے ان کا تجزیہ بھی کرتا ہے مثلاً ظاہری قوتوں میں حواس خمسہ ہیں جن کے ذریعے وہ علم حاصل کرتا ہے جبکہ اس کی باطنی قوتیں وہ ہیں مثلاً قوت حفظ، قوت شعور وتحت شعور ہے، قوت ادراک ہے، بھوک اور پیاس کے احساسات ہیں اسی طرح ان قوتوں کے لیے انسان کی کچھ اخلاقیات بنتی ہیں امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ انسان چار طرح کی اخلاقیات کا مرکب ہے مثلاً فرشتوں کی اخلاقیات، شیاطین کی اخلاقیات، درندوں کی اخلاقیات اور کتوں کی اخلاقیات ان تمام میں سے ہر ایک غلبہ چاہتی ہے ان سب میں اعتدال ہی انسان کو ایک متوازن شخصیت بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ان اخلاقیات سے انسان کے اعمال بنتے ہیں اور پھر یہی اعمال نیکی اور گناہ بنتے ہیںان اعمال کا کنٹرول دل کے پاس ہوتا ہے اس وجہ سے ہر انسان کو اس کا ماحول متاثر کرتا ہے اس وجہ سے ہر انسان احساس و شعور کا مالک ہوتا ہے۔ انسان روح اور مادے کا مرکب ہوتا ہے۔ ہر انسان کی ایک فکر ہے اور اس سے اس کا عمل بنتا ہے، ہر انسان کا ایک قلب نظر ہے یعنی ہر انسان کا ایک وژن ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر انسان تخلیق و تعمیر کا مالک ہوتا ہے اور ہر انسان وعدہ ’’الست‘‘ کے ذریعے اپنے رب سے جڑا ہوا ہوتا ہے یہ تمام قوتیں ملکر انسان کو تعمیر وتخریب کا ذریعہ بنا دیتی ہیں۔ یہی احساسات اور جذبات ہوتے ہیں جن کی وجہ انسان ایک وقت میں ظالم وجابر بن جاتا ہے لیکن اگر ان احساسات وجذبات میں اگر توازن پیدا ہو جائے تو انسان مظلوم کا مدد گار اور رحم دل بن جاتا ہے۔

انسان کی یہ ظاہری اور باطنی طاقتیں اور جذبات و احساسات جب ایک مرکزی نکتہ تک پہنچتے ہیں اور وہ ترقی کرتے ہیں یہ ترقی خواہ تعمیری ہو یا تخریبی تو پھر انسان جذبات کی صورت میں اظہار مافی الضمیر کرتا ہے اور ان جذبات کا اظہار انسان کبھی تو شعر وشاعری کی صورت میں کرتا ہے کبھی طرز تکلم خطبہ اور وعظ ونصیحت کی صورت میں کرتا ہے، کبھی تحریر اور نثرکی صورت میں کرتا ہے کبھی انسان اپنے جذبات کا اظہار تبصرہ نگاری، افسانہ نگاری اور مباحثہ نگاری کی صورت میں کرتا ہے اور انسان یہ اظہار کبھی کتب نویسی اور مقالہ نویسی کی صورت میں کرتا ہے اور کبھی یہ اظہار تحقیق و تنقید کی صورت میں ہوتا ہے انسان کا یہ اظہار مافی الضمیر کبھی اقوال زریں بن جاتا ہے اور کبھی اس کا ایک جملہ محض فلسفیانہ جملہ بن جاتا ہے لیکن کبھی انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کی لکھی ہوئی ایک سطر آئین وقانون اور دستور بن جاتا ہے اور اس کی لکھی ہوئی تحریر میثاق اور معاہدہ بن جاتا ہے اور یہی وہ انسان ہوتا ہے کہ جب وہ مزید ترقی کرتا ہے تو اس کا ایک مختصر سا عمل معاشرہ کا رسم ورواج بن جاتا ہے، دراصل انسان کا یہی مافی الضمیر پوری قوم کا تہذیب وتمدن بن جاتا ہے اور یہی اس قوم کا فکری ونظری سرمایہ بن جاتا ہے اور یہی تعمیری ادب بعد میں قوم کی تعمیر و ترقی کا باعث بن جاتا ہے قوم اور آنے والی نسلیں اس کو اپنا کل سرمایہ افتخار تصور کرتی ہیں۔ قوم اور آنے والی نسلیں اس کو بطور فخر بیان بھی کرتی ہیں اور اس سے سبق بھی حاصل کرتی ہیں، انسان کا یہی اظہار مافی الضمیر قوم کا لٹریچر اور تعمیری ادب بنتا ہے قوم اور آنے والی نسلیں اس سے سبق حاصل کرتی ہیں یہی ادب اور لٹریچر ہوتا ہے جو اپنے زمانہ میں بڑی اثر پذیری بھی رکھتا ہے۔

تعمیری اور تخریبی ادب کی اثر پذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جاہلانہ شعر وشاعری کے سردار امراؤ القیس تھے تو نبیؐ کے دور میں تعمیری شعر وشاعری کے سردار حسان بن ثابت ؓ اور عبداللہ بن رواجہ ؓ تھے بعد کے زمانہ میں مولانا جلال الدین رومی ؒ کی اور علامہ اقبال ؒ کی شاعری نے بہت دور رس اثرات مرتب کیے اور ہزاروں لوگوں کو شاعر بنایا اور ان تمام شعراء نے دنیا میں کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا۔ اگر زمانہ جاہلیت کے خطباء کے سردار قیس بن ساعدہ الایای اور عمرو بن کلثوم ہیں تو تعمیری مواعظ کے سردار لقمان حکیم ہیں کہ جن کے مواعظ کو خود قرآن مجید نے بھی نقل کیا اور بعد کے زمانہ میں حکایات رومی ؒ، شمس تبریز کے ۴۰ اصول عشق محبت کے اور بدیع الزمان نورسی کے مواعظ حسنہ قابل توجہ ہیں اور فی زمانہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے مواعظ حسنہ قابل تقلید ہیں اور یہی اس زمانہ کا تعمیری ادب ہے جس نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا ہے۔ اسی طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والے اور اسلام اور مسلمانوں کو دوبارہ زندہ کرنے والوں کی اثر پذیری کا تجزیہ کریں تو ایک طرف مشرقین میں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والوں کے سرخیل گولڈ زیہر، سرولیم میور، آرٹر جیفری، مارگولیتھ اور جارج سیل ہیں جنہوں نے اسلام کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا اور دقت نظری سے اسلام کو پڑھا اور سمجھا اور پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کیا سب سے پہلے انہوں نے مسلمانوں کے علمی ذخائر کو اپنی زبانوں میں منتقل کیا انہوں نے اسلام کے ساتھ مسلمانوں کے جذباتی لگاؤ کو کم کرنے کے لیے دلائل تلاش کیے،

انہوں نے عالم اسلام میں اسلام کو بطور نظام زندگی پھیلانے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور سرگرمیوں کو منظم کیا، عالم اسلام میں مسلمانوں میں تفرقہ کی پوری ساعی کی تاکہ مسلمان متحد اور متفق نہ ہو سکیں، انہوں نے عالم اسلام میں مسلم نوجوانوں کو Lgbtiq اور فری میسن تنظیموں سے جوڑا تاکہ وہ اپنے اسلاف سے کٹ جائیں اور فحاشی اور عریانی میں مبتلا ہو جائیں، انہوں نے عالم اسلام کو میڈیا کے ذریعے کھیل کود اور تماشا میں مصروف رکھا تاکہ مسلم نوجوان تعلیم وتحقیق سے دور ہو جائیں ان تمام امور کا مدعا اور مقصد یہی تھا کہ وہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو اپنا غلام بنالیں اور ان کے ممالک اور وسائل پر قبضہ جمائے رکھیں اس کے لیے سیکولرزم، سوشلزم، کمیونرم اور فیمینزم کے نظریہ کو منظم کیا اور عالم اسلام کو ان نظریات کو قبول کرنے پر مجبور کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں مسلمان ۲ ارب اور ۵۷ مسلم ممالک ہونے کے باوجود ’’کغثاء سیل‘‘ یعنی سمندر کی جھاگ کے مانند ہیں۔

لیکن دوسری طرف اگر تعمیری ادب اور تحریکیں تخلیق کرنے والوں کے ناموں پر غور کریں تو ان میں مجدد الف ثانی ؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا پورا خاندان، سید احمد شہید ؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان سے پہلے آئمہ اربعہ کے کام اور امام غزالیؒ، امام ابن تیمیہ ؒ کے کام نے لاکھ کروڑ وں انسانوں کو متاثر کیا اور ان آئمہ کرام نے آنے والی نسلوں کو دوبارہ سے اسلام کے لیے زندہ کر دیا اور کروڑوں صفحات پر علمی لٹریچر اور اسلامی تحریکات کو کھڑا کر دیا۔ لیکن موجودہ اور گزشتہ صدی میں سید ابوالاعلی مودودی ؒ، سید قطب شہیدؒ اور امام حسن البناء ؒ کے علمی کارنامے، لٹریچر اور عملی تحریکات نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے گزشتہ صدی میں انقلاب ایران، جہاد افغانستان، انقلاب ترکی اور انقلاب مصر والجزائر اور انقلاب سوڈان نے دنیا کو تبدیل کر دیاہے۔ او ر خصوصاً تحریکات آزادی کشمیر وفلسطین، بوسنیا و شیشان کو ان نظریات نے نئی زندگی بخشی ہے ان تمام انقلابات اور تحریکات کے پیچھے سید قطب شہید ؒ اور سید مودودیؒ کی فکر اور لٹریچر اور تحریک ہے جس نے آج کروڑوں انسانوں کو احیائے اسلام کے لیے کھڑا کر دیا ہے اور وہ اسلام کی خاطر اپنی جان مال اور وقت قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور اب غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور فلسطین کے مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے لیکن ان کے مقابلہ میں نہتے مسلمان جن کے پاس صرف انٹی ٹیک میزائل ہیں جن کو لے کر وہ کفار کے سامنے آجاتے ہیں آج غزہ میں مسلمانوں کی جدوجہد سے ہی کشمیریوں کو اور دنیا کی آزادی کی تحریکات کو نئی زندگی ملی ہے۔ یہی وہ تعمیری ادب اور لٹریچر ہے جس نے احیائے اسلام کی تحریکات کو کھڑا کر دیا ہے ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ساری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرائے گا۔