آئینِ پاکستان
اِسلام سے متعلق ہر وہ چیز جو دستور میں شامل ہے، دراصل ہماری (اجتماعی) کوششوں کے نتیجے میں شامل کی گئی ہے۔ جہاں تک اِن دفعات کے شامِل آئین ہونے کا تعلق ہے اس پر تو ہم مطمئن ہیں، لیکن اس بات پر مطمئن نہیں ہیں کہ ان پر عمل درآمد کِس طریقے سے ہورہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دفعات کو سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے اور نہ صرف یہ کہ ان پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ جتنے کام بھی کیے جار ہے ہیں وہ ان کے برعکس کیے جا رہے ہیں۔
٭…٭…٭
ہم صِرف اتنا ہی نہیں چاہتے کہ محض قانونی نظام (system legal) کو تبدیل کیا جائے، بلکہ ہمارے پیشِ نظر پورے معاشرے کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنا اور پورے نظامِ حکومت کو تبدیل کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے صِرف قانونی نظام کو تبدیل کرنا کافی نہیں ہو سکتا۔
قانونی نظام کے ساتھ ایک بڑا تعلق ملک کے تعلیمی نظام کا ہے۔ اگر نظامِ تعلیم افرادِ قوم کو مسلمان بنانے والا نہ ہو تو محض قانونی نظام کے نفاذ سے اِسلامی معاشرے کی تشکیل کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ایسا ہی معاملہ ملک کے معاشی نظام کا ہے۔ اگر اسے صحیح اِسلامی خطوط پر استوار نہ کیا جائے تو اس صورت میں محض قانونی نظام کی اصلاح مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس بنا پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پوری معاشرتی زندگی، اِسلام کے مطابق ہو۔ ہماری حکومت کی نمایاں پالیسیاں اسلام کے مطابق ہوں اور حکومت کے سارے معاملات صحیح اِسلامی خطوط پر انجام پائیں۔
اس مقصد کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سروسز کی ٹریننگ کے تمام اداروں کا تعلیمی اور تربیتی ڈھانچا تبدیل کیا جائے۔ سِول سروس کے تمام شعبوں اور فوج کی تربیت کے اداروں میں بھی اسلام کی اخلاقی تعلیم دینے کا انتظام کیا جائے اور زیرِ تربیت افسروں کے دِلوں میں اِسلام کا صحیح شعور (creed) بٹھایا جائے۔ اِن کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ کام نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس صورتِ حال یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے زمانے میں سروسز کو جس طرز پر ٹریننگ دی جاتی تھی، اسی طرز پر اب بھی دی جا رہی ہے۔ اِسلامی تربیت کی کوئی فکر اب تک نہیں کی گئی۔ اس لیے ہمارے نقطۂ نظر سے محض لیگل سسٹم (قانونی نظام) میں تبدیلی کافی نہیں ہے۔ ہم مکمل تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔
٭…٭…٭
ہم نے یہ بات ثابت کرنے میں کئی سال صرف کیے ہیں کہ ایک جدید ریاست کو مکمل طور پر اِسلام کے عطا کردہ اصْولوں پر چلایا جاسکتا ہے اور صرف چلایا ہی نہیں جاسکتا، بلکہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی بنیادوں پر قائم ہونے والی جدید ریاست دوسری تمام جدید ریاستوں سے زیادہ کامیاب اور بہتر ہے۔ چنانچہ ہماری کوشش صِرف یہی نہیں ہے کہ ہم پاکستان میں اِسلام کو نافذ کر کے یہ بتائیں کہ اِسلام کی بنیادوں پر ایک جدید ریاست چل سکتی ہے، بلکہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس جدید ریاست کو دیکھ کر دْنیا کی دوسری جدید ریاستیں اس بات کی قائل ہوجائیں کہ یہ ریاست ہم سے کہیں بہتر اور فائق ہے۔ اسلامی ریاست کے اصول باقی تمام سیاسی نظاموں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ دْنیا کے مسلمان ممالک میں بھی ایک (طاقتور) عنصر موجود ہے جو اِسلام کے حقیقی اصولوں پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہے۔
(بی بی سی کو انٹرویو، ترجمان القرآن، فروری 2022)