علامہ جمیل مظہری کا ایک معرکہ آراء شعر ہے
بقدرِ پیمانۂ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پہم تو دم نکل جائے آدمی کا
اس شعر میں علامہ نے انسان کے ایک اہم ترین مسئلے کے متعلق کم و بیش ساری اہم باتیں کہہ دی ہیں۔ اس شعر کا لب لباب یہ ہے کہ خود فریبی انسان کے لیے ضروری ہے کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو انسان زندہ ہی نہ رہ پائے۔ علامہ نے اگر چہ ’’خودی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن دوسرے مصرعے میں اسے فریب پیہم قرار دے کر اس امر کی نشاندہی بھی کر دی ہے کہ یہ خودی انسان کے خود سے متعلق تصور کے سوا کچھ نہیں اور یہ تصور خود فریبی کا حامل ہوتا ہے، علامہ نے اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ کر دیا ہے کہ یہ تصورِ بقدر پیمانۂ تخیل ہوتا ہے۔ مظہر صاحب کی بیان کردہ حقیقت تلخ ہے، لیکن انسان کا بھلا اسی میں ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرلے۔ اس سے بھی بہتر بات یہ ہے کہ دل سے تسلیم کرلے۔
اس مشورے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ انسان خود فریبی کو تسلیم نہیں کرتا کبھی وہ کہتا ہے کہ حقیقت تو یہی ہے کبھی کہتا ہے کہ تجربہ مشاہدہ اور تجزیہ یہی بتاتا ہے۔ وہ کبھی کسی فلسفے کا سہارا لیتا ہے اور کبھی کسی نظریے کا۔ غرضیکہ ایک مضمون کو سو طرح باندھتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر مذکورہ حقیقت کا اعتراف کر لیتے ہیں لیکن ان کا اعتراف محض اعتراف رہ جاتا ہے۔ زندگی پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
انسان کی خود فریبی کی ابتدا بچپن ہی سے ہو جاتی ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ کتنا ذہین یا کتنا کند ذہن ہے۔ کوئی نہ بھی بتائے تو انسان حالات و واقعات سے خود کوئی نہ کوئی نتیجہ اخذ کر لیتا ہے۔ انسان اپنے خاندان اپنی نسل، اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنے جغرافیے، اپنی قوم اور اپنے ملک پر فخر کرتا ہے اور اسے یہ فخر با قاعدہ سکھایا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی ’’ضرورت‘‘ محسوس کی جاتی ہے۔ یہ ضرورت بیش تر صورتوں میں معاشرتی اور سیاسی ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ فی الواقع بہتر ہوتے ہیں وہ کبھی اپنی بہتری اور برتری کا اظہار نہیں کرتے۔ ایسے لوگ اپنے ماحول کے سماجی و سیاسی مطالبوں سے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ زندگی اور انسان کو ایک نئے زاویے اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ’’حیات محض‘‘ کا مفہوم دراصل ایسے ہی لوگوں کے حوالے سے آشکار ہوتا ہے۔ آفاقیت کے معنی بھی ایسے ہی لوگوں کے توسط سے سمجھ میں آتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ صورتِ حال اس کے باوجود رونما ہوتی ہے کہ دُنیا کے ہر سچے مذہب نے خود آگہی کو اہم قرار دیا ہے۔ عارفین نے بار بار تلقین کی ہے کہ خود کو جانو۔ صوفیا نے فرمایا ہے کہ اپنے آپ کو تلاش کرو۔ فلسفیوں اور دانشوروں نے مشورہ دیا ہے کہ اپنے آپ کو پہچانو۔ لیکن عملی زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ مذاہب، عارفین، صوفیاء فلسفیوں اور دانشوروں کی تعلیمات عام طور پر کتنی غیر موثر ہو جاتی ہیں۔ لیکن علامہ مظہری کے شعر میں ایک اور اہم پہلو کی طرف اشارہ موجود ہے۔
مظہری صاحب کا خیال یہ ہے کہ زندگی کے لیے خود فریبی ضروری ہے، کیونکہ اگر خود فریبی نہ ہو تو زندہ رہنا ناممکن ہو جائے۔ اس بات سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مظہری صاحب کے نزد یک زندگی بجائے خود ہر شے سے بڑی ’’قدر‘‘ ہے۔ یعنی انسان کی اولین ضرورت یہ ہے کہ زندہ رہے، خواہ اس کے لیے خود فریبی ہی کا سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خود فریبی جائز قرار پا جاتی ہے یا Legitimize ہو جاتی ہے۔ کیا مظہری صاحب کی بات کا مفہوم یہی ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ مظہری صاحب نے شعر میں ’’آدمی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، آدمی ، انسان بظاہر عام سے الفاظ ہیں لیکن بیش تر صورتوں میں ان کا استعمال گمراہ کن انداز میں کیا جاتا ہے، مثلاً جب کوئی یہ کہتا ہے کہ آدمی یہ ہوتا ہے اور انسان کو یہ کرنا چاہیے یا انسان کے لیے فلاں چیز یا فلاں بات ٹھیک ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے نزد یک آدمی کا مفہوم کیا ہے؟ کیا آدمی سے مراد ہر انسان ہے یا یہ لفظ استعمال کرنے والا آدمیوں کے مابین کسی امتیاز کا قائل ہے۔ اگر وہ شخص آدمیوں یا انسانوں کے درمیان کسی امتیاز کا قائل ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے تصور کا اطلاق بیک وقت سب انسانوں پر کیونکر کر سکتا ہے۔ جہاں تک مظہری صاحب کے شعر کا تعلق ہے تو اس میں آدمی کا لفظ عمومی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور ہر چند کہ شعر کے خالق کو غزل کی ایمائیت اور اس کے سانچے اور اسلوب کی محدودات کی رعایت دی جا سکتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ خود فریبی کے سہارے زندہ رہتے ہیں، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خود فریبی زندگی کی ’’ناگزیر‘‘ ضرورت اور تقاضا نظر آتی ہے۔ یہ ضرورت اور تقاضا شدید ہے۔ اس کا اندازہ مارسل پروست کے اس فقرے سے ہوتا ہے کہ زندگی ہر انسان کے باطن میں ایک کتاب لکھ رہی ہے اور انسان کا اولین فرض ہے کہ وہ یہ کتاب پڑھے لیکن اس کتاب کو پڑھنے کا عمل اتنا خوفناک ہے کہ لوگ اس سے بچنے کے لیے قومی جنگوں میں شریک ہو جاتے ہیں اور خود کو ہلاک کر لیتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ سب لوگ ایسا نہیں کرتے، کچھ لوگ اس کے برعکس ’’آگہی‘‘ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن اکثر لوگوں کی آگہی بھی خود فریبی کا حصہ ہوتی ہے جس سے خود فریبی مزید دلکش اور رنگا رنگ بن جاتی ہے۔ جس شخص نے سب سے پہلی بار آ گہی کو عذاب کہا ہو گا اس پر کسی نہ کسی درجے میں یقینا یہ حقیقت منکشف ہوئی ہوگی کہ اس کی آگہی بھی خود فریبی کا حصہ ہے، کیونکہ حقیقی آگہی کبھی عذاب نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ انعام ہوتی ہے اور انعام ہی دکھائی دیتی ہے۔
مظہری صاحب نے شعر کے مصرعہ اولیٰ میں تخیل کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن اس کا مفہوم استعداد ہے۔ یعنی ہر انسان اپنی استعداد کے مطابق خودی کا سرور پیدا کر لیتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ خود فریبی کے جال اور جادو کی تخلیق میں تخیل مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخیل کا تعلق بنیادی طور پر اُصولِ کثرت سے ہے۔ اصول کثرت اپنی جگہ جائز اصول ہے لیکن اگر اس کا تعلق اصولی وحدت سے ٹوٹ جائے تو کثرت انسان کے باطن اور خارج میں ایک نہیں، ہزاروں بھول بھلیاں تخلیق کر دیتی ہے۔ یہ کام بنیادی طور پر تخیل ہی کے ذریعے عمل میں آتا ہے، گمان تقریباً تخیل کے ہم معنی لفظ ہے اور گمان کی ضد یقین ہے اور یقین کا تعلق یقینا اصول وحدت سے ہے۔ اقبال نے کہا ہے؎
مرا دل مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہ ایک عام تجربے کی بات ہے کہ بعض لوگ زندگی میں ایسے واقعات یا حادثات سے دو چار ہوتے ہیں جو ان کی فکر اور شخصیت کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیتے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے لوگ زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہتے، ایسے لوگوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ واقعے یا حادثے کی نذر ہو گئے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ واقعے یا حادثے کے نتیجے میں ان کے سارے خیالات، تجزیے اور امیدیں بے معنی ہو کر سامنے آجاتی ہیں اور آگہی ان پر ایک شاک اور صدمے کو چھوتی ہوئی حیرت کی طرح وارد ہوتی ہے اور وہ اس کا بار نہیں اُٹھا پاتے۔