قابل رشک اُڑان

473

آج ہماری تحریر کا مرکزی کردارکوئی بندہ بشر نہیں، ایک پرندہ ہے۔
ایک دربار تصور کیجیے جہاں انسان, جن، جانور، پرندے سب اپنے منصب کے اعتبار سے صفوں میں موجود ہیں۔ سب عظیم بادشاہ کا انتظار کررہے ہیں۔ بادشاہ سلامت تشریف لاتے ہیں۔ دربار پر ایک گہری نظر ڈالتے ہیں۔ صفوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ پرندوں کی صفوں کا معائنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’میں ہد ہد کو کیوں نہیں دیکھ رہا؟ کیا وہ غیر حاضر ہونے والوں میں سے ہے؟ جب تک وہ اپنی عدم موجودگی کی واضح وجہ نہ بتادے میں اسے سخت سزادوں گا یا اسے ذبح کردوں گا‘‘۔
ہد ہد کہاں چلا گیا تھا؟ سیدنا سلیمانؑ کا ہد ہد! کیا وہ سیدنا سلیمانؑ کا مزاج شناس نہیں تھا؟ کیا اسے صف سے غیرحاضر رہنے کی سنگینی کا احساس نہیں تھا؟ اس ہد ہد کے دماغ میں کیا تھا جو اسے پر یشان کررہا تھا؟ جس کی وجہ سے وہ غیر حاضر تھا۔
ہد ہد نے جب فلسطین سے انجان فضائوں میں پرواز کی وہ ایسی سلطنت اپنے پیچھے چھوڑ کر جارہا تھا جو بے حد خوشحال تھی۔ یہ ایسی سلطنت تھی جو پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئی۔ اس سلطنت میں دین کی حکمرانی تھی۔ اس سلطنت کا بادشاہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا نبی تھا۔ ان سب نعمتوں کے باوجود ہد ہد سست اور تن آسان ہوا اور نہ عیش وآرام پر مطمئن۔ اس نے فلسطین سے سفر آغاز کیا، اڑ کر ہزاروں میل کا سفر طے کرتا ہوا، پورا جزیرہ نما عرب عبور کیا۔ ایک مقام پر پہنچا۔ وہاں کی تفصیلی رپورٹ لی۔ تب واپس آیا۔ سیدنا سلیمانؑ ہد ہد کے بارے میں دریافت کرہی رہے تھے کہ وہ دربار میں حاضر ہو گیا۔ وہ تھکا ہوا نظر آرہا تھا۔
ہد ہد نے سیدنا سلیمانؑ سے کہا ’’میں آپ کے لیے ایسی خبر لایا ہوں جو آپ نے پہلے نہیں سنی ہوگی۔ میرے تاخیر سے آنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ میں شیبہ (یمن) سے آپ کے پاس قوم سبا سے متعلق کچھ یقینی معلومات لے کر آیا ہوں۔ ایک ملکہ وہاں حکمران ہے۔ اس کا نام بلقیس ہے۔ اللہ نے اسے اپنی ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔ اس کا محل بہت وسیع اور عالی شان ہے۔ اس کے پاس ایک تخت ہے جو بہت عظیم الشان ہے‘‘۔ لیکن ہد ہد ان مظاہر سے مرعوب نہیں تھا۔ اس کے لہجے میں تلخی تھی، جیسے وہ ناراض ہو، کہ اللہ کے نازل کردہ کو نافذ نہ کرنے کی صورت میں کوئی تخت پر بطور حکمران کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ کیسے حکمرانی کرسکتا ہے؟۔ ہد ہد نے بات جاری رکھی، ایسے جیسے وہ اپنی ہی کسی پریشانی کی شکایت کررہا ہو ’’میں نے دیکھا وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو مزین کردیا ہے اور انہیں روک دیا ہے سیدھے راستے سے تو اب وہ راستہ نہیں پارہے۔۔ وہ اللہ کو سجدہ نہیں کرتے جو نکالتا ہے ہر چھپی چیزکو آسمانوں اور زمین میں سے اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عرش عظیم کا مالک ہے‘‘۔ ہد ہد نے اپنی رپورٹ میں دومرتبہ ’’ایک عظیم تخت‘‘ کا ذکر کیا تاکہ سیدنا سلیمانؑ کو اکسائے، حرکت میں لائے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرے کہ کرہ ارض پر کسی ایسے تخت یا سرزمین کو قبول نہ کیا جائے جہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے علاوہ کسی اور ضابطہ اخلاق و قانون اور میثاق پر عمل ہوتا ہو۔
سیدنا سلیمانؑ نے ہد ہد کی سزا ملتوی کردی اور اسے اپنا سفیر نامزد کرتے ہوئے کہا ’’میں تمہیں ملکہ کے نام ایک خط دیتا ہوں تم اس خط کو لو اور اسے ان کے پاس جاکر ڈال آئو۔ پھر ان سے الگ ہوکر دیکھتے رہو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں‘‘ ہد ہد پھر ایک لمبے اور پر خطرسفر پر روانہ ہوگیا اور بالآخر خط ملکہ کی گود میں ڈال دیا۔ ملکہ نے خط پڑھا۔ درباریوں سے مشورہ کیا۔ تب ملکہ نے فیصلہ کیا کہ سیدنا سلیمانؑ کے دربارمیں ایک وفدکو کچھ تحائف کے ساتھ بھیجا جائے اور دیکھا جائے کہ وہ کیا جواب لے کر آتا ہے۔ ایسا ہی ہوا لیکن سیدنا سلیمانؑ نے تحائف قبول کرنے سے انکار کردیا اور وفد کو لوٹا دیا ’’تم لوٹ جائو ان کی طرف۔ ہم ان پر ایسے لشکروں سے حملہ آور ہوں گے جن کا مقابلہ ان کے لیے ممکن نہ ہوگا‘‘ وفد نے واپس پہنچ کر ملکہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا کہ سیدنا سلیمانؑ کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ ملکہ نے سیدنا سلیمانؑ کی خدمت میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔
سیدنا سلیمانؑ کے لیے یہ بات پریشانی کا باعث تھی کہ ایک اور تخت ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نافرمانی کی علامت ہے۔ انہوں نے اپنے درباریوں سے دریافت کیا ’’تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لائے گا اس سے پہلے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہوکر میرے پاس پہنچیں۔ جنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا میں اسے حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں‘‘ سیدنا سلیمانؑ نے اس کی بات کو قبول نہ کیا۔ درباریوں میں سے ایک شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا ’’میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں‘‘ اور اس نے ایسا ہی کیا جب سیدنا سلیمانؑ نے تخت اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ میرے ربّ کی مہربانی ہے‘‘۔ چند مناظر کے بعد ملکہ سبا جو سورج کو سجدہ کرتی تھی سیدنا سلیمانؑ کے محل کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی، یہ اقرار کرتے ہوئے ’’اے میرے ربّ میں اب تک غیراللہ کی پرستش کرکے اپنے ساتھ بڑا ظلم کرتی رہی مگر اب سیدنا سلیمانؑ کی دعوت پر اقرار کرتی ہوں کہ صرف اللہ ہی کی ذات ہے جو عبادت کے لائق ہے اور وہی تمام کائنات کا خالق ومالک اور پروردگار ہے‘‘۔
اس واقعہ کا ہیرو کون ہے؟ وہ عظیم ہد ہد جو بین الاقوامی داعی کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ جو اپنی اصلاح نفس تک محدود نہ رہا جو اپنی ذات معاشرے اور ریاست کی اصلاح پر بھی قانع ہو کر نہیں بیٹھ گیا جیسا کہ آج بہت سے لوگ کافی سمجھتے ہیں۔ وہ دنیا کے تمام لوگوں اور سرزمینوں کو اسلام کی دعوت کا میدان سمجھتا ہے۔ عظیم ہد ہد سے ہم بین الاقوامی دعوت کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کے مطابق اللہ کی زمین پر کسی دوسرے تخت یا حکومت کو ہٹانے کے لیے کام کرنا ہر مسلمان کا مقصد ہونا چاہیے۔ ہم اس پیغام کے بارے میں حکمران اور عوام کے درمیان شاندار ہم آہنگی دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہد ہد ڈرا نہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اس پیغام کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے عوام اور حکمران ساتھ مل کر جہاد کریں گے۔ آج کتنی حکومتیں اور کتنے تخت ہیں جہاں اللہ کے نازل کردہ احکامات کے سوا حکومت کی جاتی ہے؟ کتنے ممالک ہیں جو اپنے دستور اور آئین میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے؟
اس واقعے کو اپنی آخری کتاب میں شامل کرنے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا مقصد کیا ہے؟ وہ مسلمانوں سے کیا چاہتے ہیں سوائے اس کے کہ اس عظیم ہد ہد کا موقف مشن عزم اور مقصد اختیار کرلو۔ آج ایسے ہی پر جوش اور وسیع النظر لوگوں کی ضرورت ہے جو بین الاقوامی سیاست میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کبریائی کا پرچم لے کر اٹھیں اور عقیدہ توحید اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کو دنیا میں نافذ کریں اور ان تمام تختوں کو ہٹانے کے لیے کام کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سے ہٹ کر حکمرانی کرتے ہیں۔