اسرائیل اور کے الیکٹرک کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں؟

224

اسرائیل نے جس طرح فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اس پر ہٹلر کی روح بھی شرمسار ہورہی ہوگی اور وہ سوچ رہا ہوگا کہ میں نے تو ان کے ساتھ کچھ بھی نہیں کیا جو یہ آج فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ یہ پوری دنیا کا مانا ہوا اصول اور ضابطہ ہے کہ جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد بھی پناہ گزین کیمپوں پر کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کیا جاتا ایک اور اصول یہ ہے کہ جنگ میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے ویسے تو جنگ کے اور بھی کئی قواعد و ضوبط ہیں لیکن ان ہی دو پر بات کرلیں کہ اسرائیل نے شروع سے شہری آبادیوں پر حملے کیے ہیں اور زیادہ تر عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت کوئی ملک اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے کہتے ہیں کہ اب تک تیس ہزار سے زائد فلسطینی جس میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے شہید ہوچکے ہیں یہ تعداد بھی مبہم ہے اس لیے کوئی با ضابطہ ایسا شماریاتی ادارہ نہیں ہے جس نے فلسطینی شہدا کی صحیح تعداد شمار کی ہو اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم اس تعداد کو دوگنا سمجھا جائے آج ہی کے اخبار کی خبر ہے کہ ہزاروں فلسطینی بچے لاپتا ہیں جو یقینا اسرائیل کے عقوبت خانوں میں ہوں گے۔ اب تو اسرائیل کے اندر سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ حماس ایک نظریہ ہے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
اسرائیل کے ظلم کی داستان اتنی طویل ہے کہ اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اب بھی وہ روزآنہ خان یونس اور دیگر مقامات پر مظلوم فلسطینیوں کے کیمپوں پر بمباری کررہا ہے زخمیوں کا ٹھیک سے علاج نہیں ہو پارہا ہے۔ بھوک سے نڈھال فلسطینیوں کو غذائی امداد میں رکاوٹیں ڈالی جارہی سوشل میڈیا پر ایک کلپ دیکھا کہ اسرائیل کے یہودیوں نے فلسطینیوں کے کیمپ پر جانے والے ایک امدادی ٹرک کو روک لیا اور تمام غذائی اشیاء کو ناکارہ اور ناقابل استعمال بنا دیا اسرائیل کا ظلم طوالت اختیار کرتا جارہا ہے افسوس کی بات یہ ہے یکہ و تنہا مظلوم فلسطینی اس کا مقابلہ کررہے ہیں اسرائیل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو نیست و نابود کردیں گے۔ اسرائیل عملاً نسل کشی کررہا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا بالخصوص بڑے ممالک جو سلامتی کونسل پر اپنی بالا دستی قائم رکھے ہوئے ہیں انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی اور اسلامی ممالک کے سربراہان نے تو بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے ہماری تو اللہ سے یہی دعا ہے کہ کوئی غیب سے فلسطینیوں کی ایسی مدد کردے کہ ان کی یہ آزمائش ختم ہوجائے اور اے اللہ مسلمان حکمران تو بے بسی اور بے حسی کا شکار ہیں لیکن درد دل رکھنے والے دنیا کے مسلمان اور تمام فلاحی تنظیمیں اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کررہے ہیں کئی ڈاکٹر حضرات اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ اس لیے کہ سامنے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
کے الیکٹرک کراچی والوں کے لیے ایسا بدمست ہاتھی بن چکا ہے جو کسی کے کنٹرول میں نہیں آرہا، اب سے دو سال پہلے مئی 2023 میں ایک مضمون ’’کے الیکٹرک اور نیپرا کا گٹھ جوڑ‘‘ کے نام سے لکھا تھا پہلے اس کا ایک اقتباس دیکھ لیں۔
’’کراچی میں کے ای ایس سی یعنی کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن تھی جو کراچی کے شہریوں کو بجلی فراہم کرتی تھی پھر بڑی تیز رفتاری سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا یہ فطری سے زیادہ غیر فطری تھا۔ فطری اضافہ بچوں کی پیدائش سے ہوتا ہے اور غیر فطری اس طرح کے پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آنا شروع ہو گئے بڑی تعداد میں کچی بستیاں وجود میں آئیں کے ای ایس سی بجلی کی بڑھتی طلب پورا کرنے میں ناکام رہی تو اسے پاکستان نے ابراج گروپ کے ہاتھوں بیچ دیا یہ ابراج گروپ کیا ہے کہاں ہوتا ہے اس کی تفصیل بتانا غیر ضروری ہے البتہ اس گروپ نے کراچی کے شہریوں پر جو ظلم کیے ہیں اس کا ذکر کرنا ضروری ہے اس کے مالک لندن کی جیل میں ہیں امریکا کی جیل ان کے انتظار میں ہے امریکا برطانیہ اور مغربی ممالک سے ہمیں جتنا ہی اختلاف ہو لیکن یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ ان ملکوں میں کوئی بیگناہ کو جیل میں نہیں ڈالا جاتا یہ وہ شخصیت ہیں جن کی پاکستان کے تمام سیاست دانوں سے دوستی ہے یہ ان کے انتخابی اخراجات پورے کرتے ہیں کئی سال پہلے کی بات ہے بجلی کے مسئلے پر جماعت اسلامی نے کوئی احتجاج کی کال دی اور اس میں کوشش کی کہ پی ٹی آئی کو بھی ملالیا جائے اس پارٹی کے رہنمائوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ ہمیں فنڈنگ کرتے ہیں اس لیے ہم ان کے خلاف مظاہرے میں شریک نہیں ہوسکتے۔
کے الیکٹرک نے کراچی کے شہریوں پر جو ظلم روا رکھا ہوا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی کہ اسلام آباد کے ایک شہری کو 102 یونٹ کا بل 1500 کی رقم کا ملا اور کراچی کے ایک شہری کو 102یونٹ کا جو بل ملا وہ ساڑھے چار ہزار کا تھا۔ حکومت پاکستان کا ادارہ نیپرا کے الیکٹرک کی سرپرستی کرتا ہے اس طرح کہ اگر پانچ روپے فی یونٹ بڑھانا ہے تو نیپرا والے کے الیکٹرک سے کہیں گے کہ آپ ہمیں 8روپے بڑھانے کی درخواست کریں تو ہم اسے پانچ روپے کردیں گے عوام بھی خوش ہوجائیں گے۔ کراچی کے عوام کا خون نچوڑنے کے لیے کے الیکٹرک اور نیپرا نے آپس میں گٹھ جوڑ کیا ہوا ہے‘‘۔
یہ تحریر دوسال قبل کی لکھی ہوئی اب تو کے الیکٹرک کا ظلم اتنا بڑھ گیا ہے کہ لوگ خودکشی کرنے کا سوچنے لگے ہیں۔ اس ادارے کی جرائم اور چوری کی تفصیل تو بہت ہے یہاں چند ایک کا ذکر کرتے ہیں کے الیکٹرک نے حکومت پاکستان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر فی یونٹ چارجز میں ہمارا مطلوبہ اضافہ کردیا جائے تو ہم اسٹاف کو نہیں نکالیں گے حکومت نے وہ اضافہ کردیا لیکن کے الیکٹرک نے وعدہ خلافی کی اور ہزاروں ملازمین کو بیک جنبش قلم ملازمت سے نکال دیا۔ تانبے تار نکال کر سلور کے تار لگائے ایک اندازے کے مطابق تین سو ارب روپے سے زائد کے یہ تار تھے یہ کراچی کے شہریوں کے پیسے تھے جو کے الیکٹرک کھا گئی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تیسرا بڑا ظلم یہ کیا کہ بلوں میں سلیب سسٹم کو عوام کے لیے اذیت اور مصیبت اور اپنے لیے منافع بخش بنالیا ایک مثال سے سمجھ لیں فرض کریں بجلی کے ریٹ ایک سے سو یونٹ تک دس روپے فی یونٹ، سو سے دوسو تک بیس روپے دوسو سے تین سوتک کے تیس روپے اور تین سو سے چار سو تک چالیس روپے فی یونٹ اب فرض کریں کسی کا 350یونٹ کا بل آیا ہے تو اس کا حساب پہلے اس طرح ہوتا تھا ایک سے سو یونٹ تک کے 1000 روپے 101 سے 200 تک کے 2000 بیس روپے کے حساب سے پھر 201 سے 300 یونٹ کے تیس روپے کے حساب سے 3000 ہوں گے بقیہ 50یونٹ کا 40روپے یونٹ کے حساب سے 2000 ہوں گے اس طرح اس کا ٹوٹل بل 8000 کا ہوگا اب یہ ہوتا ہے کہ سلیب صرف 200 یونٹ تک ہے اب اگر کسی کا 201 یونٹ کا بل آگیا تو اس کا سلیب ختم اور سزا شروع کہ ساری کلکولیشن دو سو سے تین سو یونٹ کے ریٹ سے ہوگی جیسا کہ اس ماہ میرا 208 یونٹ کا بل آیا تو وہ 42روپے فی یونٹ کے حساب سے نو ہزار سے زائد کا ہے اب یہ سزا چھے ماہ تک رہے گی کہ ہمیں اگلے چھے ماہ تک دوسو سے کم یونٹ استعمال کرنا ہوں گے جبکہ بل اسی ریٹ یعنی 42روپے فی یونٹ کے حساب سے آئے گا ہاں چھے ماہ کے بعد دوبارہ دوسو یونٹ والے سلیب میں آجائیں گے آپ کے الیکٹرک کے دفتر جائیں تو وہ آپ کو نیپرا کی سلپ پکڑا دیں گے تاکہ عوام سمجھ لیں کہ یہ سزا نیپرا کی طرف سے دی گئی ہے۔ کنکشن لیتے وقت میٹر کی رقم لے لی جاتی ہے لیکن ہر ماہ میٹر رینٹ وصول کیا جارہا ہے۔
کے الیکٹرک کے جرائم کی داستان طویل ہے یہ ہر ماہ کسی نہ کسی بہانے بجلی کے ریٹ بڑھا رہے ہیں لوگوں کے اندر نفرت کا شدید لاوا پک رہا ہے آئی پی پی نے ملک میں جو ظلم ڈھایا ہوا ہے وہ الگ ہے غریب لوگوں کی آدھی سے زیادہ تنخواہ بجلی کے بل ادا کرنے میں نکل جاتی ہے اب تو لوگ بہت تنگ آگئے ہیں اگر حکومت نے کے الیکٹرک کو لگام نہیں ڈالی اور اس کی من مانی کارروائیوں کو ختم نہ کیا تو پھر ایسا طوفان اٹھے گا جس کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔