سنا ہے

333

سنا ہے کہ حکومت ِ پنجاب نے 200 یونٹ بجلی دینے کا علان کیا ہے اور عوام کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ٹیکس کے نام پر جو بھتا بجلی کے صارفین سے لیا جاتا ہے اس پر 200 فی صد اضافہ کیا جائے گا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ رواں سال 1300 ارب روپے کی بجلی خرچ ہوئی مگر صارفین سے 3446 ارب روپے بجلی کی مد میں وصو ل کیے گئے گویا صارفین سے 2146 ارب روپے زائد وصول کیے گئے اس وقت پاکستان میں بجلی فی یونٹ 62 روپے، افغانستا ن میں 15 روپے، بنگلا دیش میں 20 روپے، بھارت جس کی بد حالی کے قصے سنائے جاتے ہیں وہاں فی یونٹ بجلی کا نرخ 21 روپے ہے اور سری لنکا میں 25 روپے ہے۔
کہتے ہیں پاکستان میں بجلی کا نرخ اس لیے زیادہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنی منظورِ نظر کمپنی سے معاہدہ کیا ہوا ہے کہ بجلی دو یا نہ دو مگر حکومت پاکستان کمپنی کو 28 ارب روپے ادا کرنے کی پابند رہے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ جو عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہے اس احمقانہ معاہدہ پر کیوں خاموش ہے؟ ایکشن لینے سے کیوں گریزاں ہے؟ اور المیہ یہ بھی ہے کہ جعلی مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ چور چور کے ہاتھ نہیں کاٹتا اور وطن ِ عزیز بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ عوام پیشی پر آتے ہیں اور دوسری پیشی لے کر چلے جاتے ہیں۔ ایک عورت نے اپنی سوکن پر جعلسازی کا مقدمہ درج کروایا اور کسی بھی پیشی پر حاضر نہیں ہوئی کوئی سمن بھی وصول نہیں کیا گیا کیونکہ اس نے اپنا پتا غلط لکھوایا تھا۔ پانچ سے چھے سال تک مقدمہ چلتا رہا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا بڑی ہی مشکل سے مقدمہ خارج ہوا۔ سوال یہ ہے کہ مدعی کے غیر حاضر ہونے کے بعد مقدمے کی سماعت کا کیا جواز ہے؟ جبکہ ثبوتوں سے ثابت ہوتا تھا کہ مقدمہ جعلسازی پر مبنی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران مسٹر چرچل سے سوال کیا گیاکہ برطانیہ پر اس جنگ کے کیا اثرات ہوں گے؟ مسٹر چرچل نے جواب دیا کہ ہماری عدالتیں اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہیں یا نہیں؟ سوال کرنے والے صحافی جواب سن کر بہت حیران ہوا اْس نے اپنا سوال پھر سے دہرایاکہ برطانیہ پر جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ مسٹر چرچل نے بھی اپنا جواب دہرایا تو اخباری نمائندے نے کہا شاید آپ نے میرا سوال غور سے نہیں سنا۔۔۔ مسٹر چرچل نے کہا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے آپ نے میرے سوال پر غور ہی نہیں کیا۔
اصل بات یہ ہے کہ جس ملک کی عدالتیں قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں وہ جنگ اور دیگر منفی اثرات سے متاثر نہیں ہوتا وطنِ عزیز کی پسماندگی اور کمزور معیشت کی وجہ یہی ہے کہ عدالتیں اپنی ذمہ داری نبھا نے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ عدالتیں عوام کے مقدمات کو پیشی در پیشی، لیفٹ اوور اور دیگر تاخیری حربوں کی سولی پر لٹکائے رکھتی ہیں اور سیاستدانوں اور دیگر با اثر افراد کے مقدمات یومیہ بنیادوں پر سماعت کرتی ہیں جو ناانصافی کی بد ترین مثال ہے۔ اگر جمعہ اور ہفتہ کو سیاست دانوں کے مقدمات کے لیے مختص کر دیا جائے تو مقدمات کے جو انبار عدالتوں پر لگے ہوئے ہیں ان سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
عوام کی معاشی صورتحال کے پیش ِ نظر اہل ِ دانش کا یہی کہنا ہے کہ 200 یونٹ بجلی دینے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ واپڈا عوام کو ریلیف دینا ہی نہیں چاہتا بلکہ اْس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ عوام کو جتنی تکلیف دی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر واپڈا عوام کو ریلیف دینا چاہیے تو 200 یونٹ بجلی مفت دینے کے بجائے ٹیکسز ختم کر دے۔ بجلی خود بخود سستی ہوجائے گی۔