کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) وزرانے ہیٹ ویو پر ائرکنڈیشن کمروں سے بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کیا‘ ہیٹ ویوز کی پیشگی اطلاعات کے باوجودمس مینجمنٹ، ادارہ جاتی اختیارات و فرائض میں عدم توازن کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں‘ چند روز میں526سے زاید ہلاکتیں تشویشناک ہیں‘ گھرودکان میں بیٹھا شخص بجلی چلے جانے کی صورت ہیٹ اسٹروک کا شکار ہو سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار پی ٹی آئی کے رہنما خرم شیر زمان‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی ترجمان، سابق رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو‘ یونین کمیٹی8 جناح ٹائون کراچی کے منتخب چیئرمین اور بلدیہ عظمیٰ کراچی، سٹی کونسل میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کرنے والے سابق پارلیمانی لیڈر محمد جنید مکاتی‘ اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے اور معروف ماہر ماحولیات محمد توحید‘ ممتاز معالج ڈاکٹر عاصم اللہ بخش‘ انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر سائنسز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد جاوید‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ خالد کھوکھر اور معروف معالج و سماجی رہنما ڈاکٹر ابو بکر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’حکومت نے عوام کو ہیٹ ویو سے بچانے کے لیے کیا انتظامات کیے ہیں؟‘‘ خرم شیر زمان نے کہا کہ سندھ حکومت،صوبائی وزرا اور اس کے افسران کو ائرکنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھ کر ہیٹ ویو سے مرنے والوں پر بیان بازی کر نے کے علاوہ کچھ نہیں آتا ہے‘ محروم طبقہ جو دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے‘ ان کی حفاظت اور بچائو کے لیے سرکاری طور پر کولنگ سینٹرز بنائے جاتے ہیں‘ آفت کے آنے سے پہلے ہی آگاہی اور بچائو کے طریقوں کو ہر طرح سے عوام تک پہنچایا جاتا ہے‘ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر کے انسانی جانوں کو ہر ممکن طریقے سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ ابتدائی طبی امداد کے سینٹرز گلی محلوں میں قائم کر دیے جاتے ہیں تاکہ متاثرہ مریض کو کم سے کم وقت میں فرسٹ ایڈ دی جا سکے لیکن جو کچھ کراچی میں 4 روز کے دوران ہیٹ ویو سے ہوا ہے وہ اس سارے نظام کے برعکس ہے نہ بروقت آگاہی‘ نہ کولنگ سینٹرز‘ نہ ایمرجنسی‘ نہ ریسکیو کا کوئی مناسب انتظام کیا گیا ہے‘ کراچی میں بجلی نہیں لیکن بل ایسے آرہے ہیں جیسے ہمارے پاس خزانے ہیں‘بجلی نہ ہونے سے کاروبار ٹھپ ہے، اس وقت کراچی میں گیس، بجلی اور پانی نہیںہے‘ ایسی قہر برساتی گرمی میں کراچی والوں کے لیے نلوں میں پانی نہیں‘ گھروں میں بجلی نہیں ہے‘ بیمار ہو کر اسپتال پہنچے تو ابتدائی طبی امداد ناکافی ہے‘ لُو لگنے کے سیکڑوں مریضوں کے لیے اسٹریچر، بستر اور ڈاکٹر نہیں‘ ان مشکلات میں موت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ سائرہ بانو نے کہا کہ ایک طرف بڑھتی ہوئی ہیٹ ویو کی لہر کی وجہ سے شہری پریشان ہیں تو دوسری جانب لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھنے سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے‘ صوبائی حکومتی اداروں کی کارکردگی کا معیار بہتر ہونے کے بجائے زوال پذیر ہے‘ مس مینجمنٹ، ادارہ جاتی اختیارات و فرائض میں عدم توازن کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں‘ ہمارے پاس سرکاری اداروں کی بھرمار ہے، صوبائی اداروں کے افسران اور ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے‘ سرکاری خزانے سے انہیں تنخواہوں اور مراعات کی مد میں ہر ماہ کئی ارب روپے ادا کیے جاتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی کا معیار انتہائی پست ہے ۔محمد جنید مکاتی نے کہا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے ہیٹ ویوکی پیشگی اطلاعات کے باوجود حکومت نے شہریوں کو ہیٹ ویوسے بچاؤ اور تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں‘ حکومت کی نااہلی و ناکامی اور بدترین لوڈشیڈنگ نے ہیٹ اسٹروک کو عوام کے لیے دہرا عذاب بنا دیا‘ سندھ حکومت، کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ سمیت متعلقہ اداروں نے شہر میں بنیادی سہولیات کی بلاتعطل فراہمی یقینی نہ بنائی تو صورتحال قابو سے باہر ہوجائے گی‘ صرف چند روز میں سیکڑوں افرادکی اموات انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہیں اور ان میں سے زیادہ تر اموات ان علاقوں میں واقع ہوئی ہیں جہاں کے الیکٹرک نے طویل لوڈشیڈنگ جاری رکھی ہوئی ہے‘ شدید گرمی اور ہیٹ ویو کے باوجود شہر میں پانی کے بحران اور بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے‘ کے الیکٹرک نے کراچی میں شدید گرمی اور ہیٹ اسڑوک میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی نہیں کی ہے ، شہریوں کا سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے‘ خواتین، بچے اور بزرگ گھروں میں شدید ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہیں‘ طلبہ و طالبات امتحانات کی تیاریاں کرنے اور امتحانی مراکز میں شدید دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں‘ ایسے میں پانی اور بجلی وہ نعمتیں تھیں جو شہریوں کو موسم کی ہولناکی سے بچا سکتی تھیں مگر ستم یہ ہوا کہ کراچی کے بیشتر علاقوں میں بجلی 12 سے 14 گھنٹے اور پانی کئی دن سے غائب ہے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ہیٹ اسٹروک سے سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں جس کا ریکارڈ میت خانوں میں بھی موجود ہے‘ کراچی میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہیٹ ویو سے526 سے زاید ہلاکتوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ وجہ بنی ہے اس پر کے الیکٹرک کے منتظمین اور ذمہ داران پر قتل کے مقدمات درج کیے جانے چاہئیں‘ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مسلسل چوتھی حکومت ہے، موجودہ حالات ان صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا پوسٹمارٹم کرتے نظر آتے ہیں۔ محمد توحید نے کہا کہ ہیٹ ویو سمیت دیگر موسمیاتی حالات پر حکام، ادارے اور لوگوں میں آگاہی کی کمی ہے‘ قلیل مدتی توجہ، وسائل کی رکاوٹوں اور سیاسی اداروں کے نہ ہونے کی وجہ سے گرمی کے ان دائمی اثرات پر غور نہیں کرتے ہے‘ اداروں کی جانب سے لوگوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ گرمی سے متعلق بیماریوں سے بچنے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں جبکہ اس شہر میں سورج کی تپش سے براہ راست متاثر ہونے والے مزدور طبقے کے لیے شدید گرمی کی لہر کے دوران کوئی سہولت میسر نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی قانون سازی کرنے کا سوچا گیا ہے۔ دوسری جانب یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ گرمی کے موسم میں مسلسل پانی پیتے رہیں جبکہ لوگوں کو اسی شدید گرمی اور دھوپ میں ایک گیلن پانی کے لیے گھنٹوں قطار میں لگ کر انتظار کرنا پڑتا ہے‘ حکومتی اداروں کو اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے کہ کم از کم شدید گرمی کی متوقع لہر کے ایام میں بجلی اور پانی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے علاقوں میں برف کی دستیابی، ساتھ ہی برف کے کارخانوں کو پانی و بجلی مہیا کرنا، بھیڑ والے عوامی مقامات پر سائے کے لیے چھتریاں، مزدور طبقے کے لیے کام کے اوقات کار مخصوص کرنا، اسپتالوں سے لے کر چھوٹے دوا خانوں تک میں ایسے انتظامات کرنا جہاں شدید گرمی کے شکار مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج کیا جا سکے‘ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آبادی پر گرمی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ماحول بچاؤ مہم کے ذریعے ممکنہ حد تک شجر کاری کو فروغ دیا جائے۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا کہ ہیٹ ویو کی وجہ سے ہیٹ اسٹروک اور ڈی ہائیڈریشن کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے‘ شدید دھوپ میں کھلے آسمان کے نیچے زیادہ دیر تک رہنے سے لُو لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے‘ اس کے علاوہ زیادہ پسینہ آنے سے جسم میں نمکیات کی کمی ہو سکتی ہے‘ اس طرح کے موسم میں پانی زیادہ پیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر محمد ارشد جاوید نے کہاکہ درجہ حرارت کے ایک حد سے زیادہ بڑھنے اور ایک خاص لیول پر کافی عرصہ رہنے سے فصلوں کی گروتھ متاثر ہوتی ہے‘ ایسی حالت میں پودوں کو زمین سے ان کی پوری خوراک دستیاب نہیں ہوتی اور پودا کمزور ہو جاتا ہے اور ان کے پھل اور پتے گرنے لگتے ہیں‘ ملک کو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اس شدید گرمی میں زرعی شعبے کی پانی کی ضروریات بہت بڑھ گئی ہیں۔ خالد کھوکھر نے کہا کہ ہیٹ ویو کی وجہ سے ملک کے زرعی شعبے کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے، جنوبی پنجاب میں کپاس کے پودے نکل رہے ہیں شدید گرمی ان کو جھلسا رہی ہے‘ آموں کے درختوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے‘یہ ایک مشکل صورتحال ہے اور کاشتکار ان نقصانات کے آگے بند نہیں باندھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر ابوبکر نے کہا کہ کراچی میں حکومتی سطح پر عوام کو ہیٹ ویو سے بچانے کے لیے کوئی موثر انتظامات ہی نہیں کیے جاتے ہیں‘ گرمی کی شدت میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا ہے‘ لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو جاتی ہے‘ گھر میں بیٹھے اگر بجلی چلی جائے تب بھی آپ ہیٹ اسٹروک کا شکار ہو سکتے ہیں‘ حکومت اور ادارے عوام کو ان کو حال پر چھوڑ کر بری الذمہ ہو چکے ہیں‘ حکومت اس حوالے سے بالکل چپ ہے اور عوام کو آگاہی نہیں دے رہی کہ ہیٹ ویو کی صورت میں کیا کِیا جائے‘ اس شہر میں ایدھی، چھیپا اور دیگر فلاحی ادارے ایک نعمت سے کم نہیں ہیں کیونکہ حکومت نے تو عام شہریوں کو مرنے مارنے کا ہی انتظام کیا ہوتا ہے‘ چاہے وہ قدرتی آفات کے ذریعے ہو یا پھر اسٹریٹ کرائم کے ذریعے‘ ان فلاحی اداروں کے سرد خانوں میں شہری کم از کم اپنے پیاروں کی میتیں تو تدفین کے وقت تک سکون سے رکھ سکتے ہیں‘ پانی ہمیں ہیٹ اسٹروک سے محفوظ رکھتا ہے اگر کسی شخص کو ہیٹ اسٹروک میں مبتلا دیکھیں تو اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالیں اور اسے ٹھنڈی جگہ منتقل کر دیں‘ اگر دھوپ میں نکلنا ضروری ہو تو کپڑے‘ ٹوپی یا چھتری کا استعمال کریں‘ اپنے ساتھ پانی کی بوتل رکھیں‘ گرمی لگے توکپڑے کو گیلا کر کے سر اور گردن پر رکھیں۔ اگر کوئی شخص سن اسٹروک کا شکار ہو جائے تو اس کے اوپر پانی ڈال کرکے پنکھے یا اے اسی میں لے جائیں۔ اگر بجلی نہ ہو تو ٹب میں پانی اور تھوڑی برف ڈال کر مریض کو گردن تک اس میں لٹا دیں۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو مریض کو ٹھنڈی پٹیاں کریں اور فوراً اسپتال منتقل کر دیں۔ ذرا سی غفلت انسان کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے‘ اس گرمی میں جانوروں اور پودوں کا بھی خیال رکھیں‘ ان کو بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی کے برتن بھر کر گھر کی چھتوں پر رکھیں اور گھر اور گلی میں موجود پودوں اور درختوں کو باقاعدگی سے پانی دیں۔