کراچی (کامرس رپورٹر) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا پرٹیکس لگانے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام پردبامزید بڑھ جائے گا اوریہ شعبہ سکڑجائے گا جبکہ غیر دستاویزی معیشت کو تقویت حاصل ہوگی اس لیے اشیائے خوردونوش پرٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے کیونکہ اس سے فوڈ سیکورٹی کی صورتحال مزید متاثرہو گی۔ضرورت ہے کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والے شعبوں اور اشخاص سے سختی اور ایف آئی آر کے بجائے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کے ذریعے وصولی کی جائے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی آبادی کی اکثریت صحت بخش غذا سے محروم ہے جنھیں دیوار سے نہ لگایاجائے۔بجٹ میں 18 فیصد جنرل سیلزٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے یکم جولائی سے صارفین پیک شدہ دودھ پرفی لٹر50 روپے اضافی دینے پرمجبورہوں گے جس سے انکی جیب پرماہانہ بنیاد پر سیکڑوں روپے کا بوجھ بڑھ جائے گا۔اس سے کارپوریٹ سیکٹر ڈیری کا حجم بھی کم ہوجائے گا جس سیلائیواسٹاک کا کاروبار، عوام کا روزگاراورحکومت کے محاصل متاثر ہونگے۔ پاکستان کا شماردودھ کی پیداوار کے لحاظ سے اہم ممالک میں ہوتا ہے مگراسکے باوجود چالیس فیصد بچوں کا قد کم، انتیس فیصد کا وزن کم اوراٹھارہ فیصد کمزورہیں جسکی وجہ قوت خرید میں کمی، غذائی قلت اوراسکا مہنگا ہونا ہے۔میاں زاہد حسین نے حکومت سے نیوزپرنٹ پر10 فیصد جی ایس ٹی ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا اورکہا کہ میڈیا انڈسٹری پہلے ہی مشکل صورتحال سے دوچارہے اس لیے اسے واپس لیا جائے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ایف بی آرکے مطابق سال رواں میں ٹیکس فائلرزکی تعداد میں پندرہ لاکھ کا اضافہ کیا ہے جولائق تحسین ہے۔ ایف بی آر نے فلائنگ انوائسزکی شکل میں 756 ارب روپے کے مبینہ ٹیکس فراڈ کا سراغ لگایا جائے ۔