توہین عدل کی سزا کیوں نہیں؟

290

ایک رپورٹ کے مطابق اعلیٰ ترین عدلیہ میں فیصلوں کے منتظر مقدمات کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہے۔ زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جیلوں میں موجود افراد کی جانب سے دائر تینتیس ہزار اپیلیں فیصلوں کی منتظر ہیں۔ دستاویزات کے مطابق عدالتوں میں اس وقت لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہیں۔ ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف باضابطہ سماعت کے لیے منظوری کی منتظر اپیلوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال مارچ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 52ہزار 481 تھی جو رواں برس 57 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ تمام عدالتوں میں مجموعی طور پر بائیس لاکھ کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں۔

عدالت عظمیٰ، وفاقی شریعت عدالت اور ملک کی پانچ ہائی کورٹس نے گزشتہ سال کے دوران 2 لاکھ 29 ہزار 822 مقدمات نمٹائے اور 2 لاکھ 41 ہزار 250 نئے مقدمات قائم کیے اور 31 دسمبر کو اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 3 لاکھ 89 ہزار 549 تھی جبکہ یکم جنوری 2021 کو یہی تعداد 3 لاکھ 78ہزار 216 تھی۔ اسی طرح ملک کی ضلعی عدلیہ میں گزشتہ سال کے آغاز میں 17 لاکھ 83 ہزار 826 مقدمات زیر سماعت تھے۔ التوا میں پڑے مقدمات کے یہ اعداد وشمار نظام عدل کی نیک نامی کا باعث نہیں ہیں۔ ملک کا عام آدمی نظام عدل سے شدید مایوسی کا شکار ہے۔

گو کہ عدلیہ کے معاملات میں مقتدر اداروں اور سیاست دانوں کی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر عدالت عالیہ لاہور کیسر براہ کے ہوش اُڑا دینے والے بیان سے ایک شرمناک حقیقت کا اظہار ہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کی مداخلت نے یقینا نظام عدل کو متاثر کیا ہے لیکن ہمارے نظام عدل کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار صرف اسٹیبلشمنٹ اور حکمران ہیں۔ کیا عدل وانصاف کی ذمہ داری قبول کرنے والے اور بھاری تنخواہیں اور مراعات سے مستفید ہونے والے جج صاحبان اس سے بری الذمہ ہیں؟

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان نے کہا ہے کہ مختلف ادارے عدلیہ میں مداخلت میں ملوث ہیں۔ مداخلت کا آغاز مولوی تمیز الدین کیس سے شروع ہوا۔ چیف جسٹس صاحب کو امید ہے کہ عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا جلد خاتمہ ہوگا۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں مداخلت سے مل کر جان چھڑانا ہوگی۔ (’’مل کر‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے، پتا نہیں)۔ ان کی رائے میں جوڈیشری بغیر کسی ڈر خوف لالچ کے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ (برسر زمین حقائق کو دیکھتے ہوئے ان کی اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے)

چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ایک جج سے میری فون پر بات ہوئی جو ان کے ساتھ ہوا وہ سب انہوں نے بتایا، جج صاحب کا کہنا تھا کہ مجھے خوف نہیں میں اپنا کام ایمانداری سے انجام دوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ججوں پر دبائو کے حوالے سے شکایات آئی ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ اللہ کا خوف رکھنے والے کسی بلیک میلنگ سے نہیں ڈرتے۔ مگر ایسے کتنے جج ہیں جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ یہ سمجھ نہیں آیا کہ اللہ کا خوف رکھنے والے جج کے پاس کیسز میں خوفناک حد تک تاخیر کیسے ہوجاتی ہے۔

جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ عام شکایت ہے جج صاحبان عدالتوں میں وقت پر نہیں بیٹھتے۔ کیا ججوں کا وقت پر عدالت نہ آنا خدا خوفی کی نشانی ہے؟ ہم پاکستانی عوام پون صدی سے امیدوں پر جی رہے ہیں۔ ہر نئے چیف جسٹس سے، ہر نئے آرمی چیف سے، ہر نئے حکمران سے اچھے دور کی امیدیں باندھ لیتے ہیں، اب ایک دفعہ پھر باندھ لیتے ہیں کہ شاید چیف جسٹس صاحب کے خلوص اور کوششوں سے مایوسیوں بھرے جوڈیشری کے نظام عدل میں بہتری آجائے۔ جسٹس صاحب کی تشخیص درست ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ عدالتوں میں بروقت فیصلہ نہ ہونا ہے۔ کئی مقدمات ایسے ہیں جو تیس تیس سال سے عدالتوں میں لٹک رہے ہیں (میرا خیال ہے ہزاروں کیس چلے بھی کاٹ چکے ہوں گے)۔ جج صاحب نے تلخ اور دردناک حقیقت بیان کی ہے کہ ایک نسل کیس کرتی ہے، دوسری نسل اس کو دیکھتی ہے اور تیسری نسل کے نصیب میں ہو تو تب جا کر فیصلہ ہوتا ہے۔

جسٹس صاحب جانتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر نا انصافی ہے۔ کیا مقدمات کا برسوں التوا میں پڑا رہنا توہین عدل نہیں ہے؟ کیا فیصلے کے انتظار میں دونسلوں کا دنیا سے گزر جانا اور تین تین نسلوں تک مقدمات کا فیصلہ نہ ہونا ناانصافی اور توہین عدل نہیں ہے؟

عدالت اپنی توہین کے معاملے میں حساس ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے۔ مہذب معاشروں میں جج یا عدالت کی توہین ناقابل قبول عمل ہے۔ عدل کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوچیں کہ کیا عدل کی توہین پر کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے؟