پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے سیاستدان ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور بات کرنے کے لیے تیار نہیں، نفرت کی سیاست پھیلائی جارہی ہے سیاسی جماعتیں اپنی انا کے لیے پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ جس دن یہ بیان شائع ہوا اسی دن کے اخبارات میں یہ خبر ہے کہ بجٹ کے سلسلے میں پی پی پی اور ن لیگ میں جو مذاکرات چل رہے تھے اس میں ڈیڈلاک برقرار ہے پیپلز پارٹی نے غیر مشروط حمایت سے انکار کردیا۔ انا کا شکار کون سی پارٹی ہے ن لیگ یا پی پی پی یہ بات کھل کر سامنے نہیں آئی۔ بجٹ تو بہرحال منظور ہو جائے گا لیکن پیپلز پارٹی اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی اور وہ دبائو بڑھا کر اپنے دیگر مطالبات منوانا چاہتی ہے یہ دبائو بلاواسطہ یا براہ راست تو ن لیگ کی وفاقی حکومت پر ہے لیکن بالواسطہ اسٹیبلشمنٹ پر بھی ہو سکتا ہے۔
8فروری کے انتخاب کے نتیجے میں مختلف جماعتوں کے اشتراک سے جو حکومت قائم ہوئی اس میں پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان کچھ معاملات طے پائے جس کے مطابق پی پی پی نے صدر پاکستان، پنجاب اور کے پی کے کی گورنرشپ، چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے حاصل کیے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ وہ کوئی وزارتیں نہیں لے گی اور مسلم لیگ ن کی حکومت کی مکمل حمایت کرے گی۔ وفاقی بجٹ سے پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا بیان آیا کہ بجٹ سازی کے موقع پر حکومت نے اپنے اہم اتحادی کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا، اسی طرح پی پی پی کے کچھ اور رہنمائوں کے اسی حوالے سے بیانات آئے وزیر اعظم شہباز شریف جو پانچ روزہ دورے پر چین گئے ہوئے تھے واپس آنے کے بعد انہوں نے پہلی فرصت میں بلاول زرداری سے گفتگو کی اور انہیں وزیراعظم ہائوس میں مذاکرات کے لیے بلایا بلاول زرداری نے بھی یہ دعوت قبول کرلی اور جمعرات والے دن پیپلز پارٹی کا ایک وفد جس میں راجا پرویز اشرف، شیریں رحمان، یوسف رضا گیلانی، خورشید شاہ اور نوید قمر شامل تھے نے بلاول زرداری کی قیادت میں شہباز شریف سے ملاقات کی، ن لیگ کی طرف سے مذاکرات میں ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار، سردار ایاز صادق، اورنگزیب، عطاء اللہ تارڑ، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، پرویز ملک اور خواجہ سعد رفیق شامل تھے۔ ملاقات میں بلاول زرداری نے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ حکومت کسی فیصلہ سازی میں اپنی سب سے بڑی اتحادی کو اعتماد میں نہیں لیتی اور انہوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے مختلف منصوبوں میں سنجیدگی کا مظاہر نہیں کیا انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں پنجاب میں اہمیت نہیں دی جارہی۔
اس ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے مثبت اشاریے آرہے ہیں اسٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی ہے کاروباری طبقے نے بجٹ کی توثیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ملاقات کے بعد وزیراعظم نے پیپلز پارٹی کے وفد کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ کمیٹیوں کے ذریعے مشاورت جاری رہے گی۔ آخر میں بلاول زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی بجٹ کی منظوری میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔ ہماری رائے ہے کہ مسلم لیگ ن کو اپنے سب سے بڑے اتحادی کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اس حکومت کا قیام ہی پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے سندھ کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اس کا ازالہ ہونا چاہیے اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں بھی اکاموڈیٹ کرنا چاہیے۔
یہ تھی مذاکرات کی اندرونی کہانی۔ اب بلاول زرداری کے اس بیان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے سیاستدان ایک دوسرے سے بات کرنے اور ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ کہ نفرت کی سیاست پھیلائی جارہی ہے یہاں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ دو بڑی متحارب جماعتیں ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھارہی ہیں۔ بلاول زرداری نے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار تو کیا لیکن یہ بات واضح ہوکر سامنے نہیں آسکی کہ وہ تحفظات کیا ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ میڈیا کے حوالے سے جو بل پنجاب اسمبلی میں منظور ہوا ہے اس پر پیپلز پارٹی سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اسی لیے پی پی پی کے پنجاب کے گورنر نے اس پر دستخط نہیں کیے ان دنوں وہ غیر جبری چھٹیوں پر چلے گئے۔ اس بل کے حوالے سے ن لیگ کے وفد نے اپنی مجبوریوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے بجٹ میں ساڑھے تین ہزار روپے فی ایکڑ زرعی ٹیکس کے حوالے جو تجویز آئی ہے اس پر پیپلز پارٹی کو اعتراض ہو، اس لیے کہ یہ ویسے بھی زمینداروں اور جاگیرداروں کی جماعت ہے لیکن یہ شاید اتنی اہم بات نہ ہو جتنی اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپنے سیاسی مستقبل کے لیے پنجاب میں اپنے قدم مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر پاکستان کا عہدہ اور پنجاب کی گورنرشپ کسی حد تک تو کام آسکتی ہے لیکن وسیع پیمانے پر سیاسی اثر و نفوذ کے لیے پنجاب حکومت میں اہم وزارتوں کا ہونا بہت ضرری ہے۔