ایک طرف غزہ کے مسلمان بھائیوں پر ایک ایک لمحہ قیامت گزرنے پر زبانی ہمدردی کرنے والے یہ منافق مسلم حکمران ہیں جو اس تنازعے سے پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوشاں تھے جنہوں نے بدترین صورتحال میں بھی اہل فلسطین کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ یہودی ریاست کی براہ راست مدد کرنے میں مصروف رہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اس منافقت کی کلاسک مثال ہیں جنہوں نے اعلان کیا تھاکہ اہل فلسطین کی حمایت میں وہ اسرائیل سے تجارت روک رہے ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ پس پردہ وہ یونان کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب آدمی پکار اٹھتا ہے ’’یااللہ‘‘
دوسری طرف عالم کفر ہے، یہودی ریاست کی سلامتی کے لیے یکجاو یک جان۔ اقوام متحدہ، امریکا اور یورپ کی عیسائی استعماری طاقتیں اور ان کا میڈیا ایک ایک قدم یہودیوں کے مفادات کے مطابق چل رہے ہیں۔ اسرائیل نے اہل غزہ کو آگ اور خون میں غسل دینے میں جو کسر چھوڑ دی یہ مغربی طاقتیں دوست بن کر اسے اپنی سفارتکاری سے پوری کرنا چا ہتی ہیں۔ 11 جون 2024ء کو، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بائیڈن کے منصوبے کی حمایت میں ایک قرارداد جاری کی جو قرارداد نہیں دراصل غزہ اور پورے فلسطین کے خلاف یہودی جارحیت کی حمایت کی دستاویز ہے۔ سی این این کی جانب سے 11 جون 2024ء کو شائع کردہ اس قرارداد کے متن کے بارے میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل، ’’31 مئی کو اعلان کردہ نئی جنگ بندی کی تجویز کا خیرمقدم کرتی ہے، جسے اسرائیل نے قبول کیا، (سلامتی کونسل) حماس سے بھی اس کے قبول کرنے کا مطالبہ کرتی ہے، اور دونوں فریقین پر زور دیتی ہے کہ وہ اس کی شرائط کو فوری اور بغیر کسی شرط کے مکمل طور پر نافذ کریں‘‘۔
بائیڈن کے منصوبے کی صورت سلامتی کونسل میں جو قرارداد پیش کی گئی یہ وہی اعلان ہے جو صدر بائیڈن کی طرف سے 31مئی 2024 کو وائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا تھا۔ جس میں درج تھا:
’’اب، میری ٹیم کی جانب سے کی گئی انتھک سفارتکاری اور ’اسرائیل‘، قطر، مصر اور دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے رہنماؤں سے میری متعدد بات چیت کے بعد، ’اسرائیل‘ نے ایک نئی جامع تجویز پیش کی ہے… اس نئی تجویز کے تین مراحل ہیں‘‘۔
1۔ ’’پہلا مرحلہ چھے ہفتوں تک جاری رہے گا۔ اس مرحلے میں: مکمل اور پوری طرح سے جنگ بندی اور غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے ’اسرائیلی‘ افواج کا انخلا شامل ہے… پہلے مرحلے کے چھے ہفتوں کے دوران، ’اسرائیل‘ اور حماس ضروری انتظامات کے لیے مذاکرات کریں گے تاکہ دوسرے مرحلے تک پیش قدمی ہو سکے، جو کہ دشمنیوں کا مستقل خاتمہ ہے… لیکن تجویز کے مطابق، اگر پہلے مرحلے میں مذاکرات چھے ہفتوں سے زیادہ وقت لیتے ہیں، تو جنگ بندی تب تک جاری رہے گی جب تک کہ مذاکرات جاری رہیں گے… اور امریکا، مصر، اور قطر مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے معاونت فراہم کریں گے… جب تک کہ تمام معاہدے تکمیل تک نہیں پہنچ جاتے‘‘۔
2۔ ’’دوسرا مرحلہ: تمام باقی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں تبادلہ ہو گا، جس میں مرد فوجی بھی شامل ہیں؛ ’اسرائیلی‘ افواج غزہ سے واپس چلی جائیں گی؛ اور جب تک حماس اپنے وعدوں پر قائم رہے گا، عارضی جنگ بندی ’اسرائیلی تجویز‘ کے مطابق مستقل دشمنیوں کے خاتمے میں بدل جائے گی‘‘۔
3۔ ’’تیسرے مرحلے میں، غزہ کے لیے ایک بڑے پیمانے پر تعمیر نو کا منصوبہ شروع ہوگا‘‘۔
چالاکی اور مکاری سے اس خاکے کو ترتیب دیتے ہوئے صدربائیڈن نے انتہائی سادگی کے ساتھ اپنی جس عصبیت کا برملا اور بار بار اظہار کیا ہے اس کا ایک ہی عنوان ہے’’اسرائیل سے محبت اور عقیدت‘‘۔ جس کا اظہار صدر بائیڈن نے اپنے بیان کا اختتام کرتے ہوئے کیا ہے ’’میں نے ’اسرائیل‘ کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی حمایت کریں، چاہے جو بھی دباؤ آئے.. اور اسرائیل کے عوام سے میں یہ کہنا چاہتا ہوںکہ ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے اسرائیل کے ساتھ ’’ زندگی بھر کا عہد‘‘ کیا ہے، واحد امریکی صدر کے طور پر جو جنگ کے دوران ’’اسرائیل‘‘ گیا، ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے ایران کے حملے پر اسرائیل کا دفاع کرنے کے لیے امریکی افواج کو بھیجا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر سوچیں کہ اگر یہ موقع کھو گیا تو کیا ہو گا‘‘۔
بائیڈن نے مزید کیا کہا، ذرا سنیے ’’اس معاہدے کے ساتھ اسرائیل خطے میں زیادہ گہرائی سے شامل ہو سکتا ہے، جس میں — آپ سب کے لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ تاریخی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے‘‘۔
بائیڈن کا یہ منصوبہ اور سلامتی کونسل کی قرارداد ایک جال ہے، یہودی وجود کی جارحیت کو مزید طول دینے کا پروگرام، جس میں اہل غزہ کے لیے مستقبل میں بھی خطرات ہی خطرات ہیں، تباہی ہی تباہی ہے، بربادی ہی بربادی ہے۔ منصوبہ کی جزیات میں صدر بائیڈن الفاظ کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ’’مکمل اور پوری طرح سے جنگ بندی‘‘۔۔۔ ’’دشمنیوں کا مستقل خاتمہ‘‘ ان الفاظ کی خوبصورتی اور نزاکت میں بے رحمی اور ظلم کے پھندوں کے علاوہ کچھ نہیں جو مغرب کا مزاج ہے۔
۱۔ منصوبہ میں مکمل انخلا کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
۲۔ ’’اگر حماس معاہدے کے تحت اپنے التزامات کو پورا نہ کرے تو اسرائیل فوجی کارروائی کو دوبارہ شروع کرسکتا ہے‘‘۔ اس ایک سطر میں پوشیدہ طوفان ملاحظہ فرمائیے:
ا۔ وعدوں کی پابندی صرف حماس کے لیے لازم قراردی گئی ہے۔
ب۔ اسرائیل پر ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔
ج۔ یہ فیصلہ بھی کوئی اور نہیں بلکہ اسرائیل کرے گا کہ حماس شرائط پوری کررہا ہے یا نہیں۔
د۔ حماس کے خلاف فیصلہ دے کر اسرائیل خود ہی فوجی کارروائی کو دوبارہ شروع کرسکتا ہے۔۔۔ کیا اس سے زیادہ کوئی معاہدہ یکطرفہ اور ظلم پر مبنی ہوسکتا ہے۔
یہ منصوبہ کسی غیر جانبدار فرد نے ترتیب نہیں دیا بلکہ ایک ایسے فرد کی جانب سے ہے جو اپنے آپ اور یہودی وجود کو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم قراردیتا ہے۔ جو کہتا ہے ’’میں عمر بھر اسرائیل کے ساتھ وفاداری کا عہد کرتا آیا ہوں‘‘ اور جو معاہدے کی تکمیل کے آخر میں یہودی وجود کو خوش خبری سنارہا ہے ’’اس معاہدے کے ساتھ اسرائیل خطے میں زیادہ گہرائی سے شامل ہوسکتا ہے جس میں سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ تاریخی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے‘‘۔ کیا آپ کے لیے یا کسی کے لیے بھی اس میں حیرانی کی کوئی بات ہے۔