یہ معاشی دہشت گردی کب تک جاری رہے گی

260

جون کے مہینے میں اس سال کا سب سے طویل دن گزر گیا، اب 14 گھنٹے کے دورانیہ کا یہ دن بتدریج گھٹنے لگے گا یہاں تک کہ دسمبر میں دن کے مقابلہ میں رات بڑی ہونے لگے گی۔ شاید شب فراق کی یہ طویل ٹھنڈی راتیں، کچھ ہماری زندگی کو آرام و سکون دے سکیں۔ آج کل تو کراچی کا موسم دن کی گرمی، حبس، اور بجلی کی کمیابی نے ایک آزمائش بنا دیا ہے۔ قربانی کے بعد فضا میں ایک تعفن رچی ہوئی ہے، جو سانس لینے میں دشواری پیدا کرتی ہے، بچے، بوڑھے، اور مریض اس سے خاص طور پر متاثر ہورہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اب تک قربانی کے طور طریقے نہ سیکھ پائے، اور اللہ کی رضا کے لیے دی جانے والی قربانی کرتے ہوئے، نہ راستوں کا خیال کرتے ہیں، نہ بیماریوں اور گندگی کو روکنے کا اہتمام کرتے ہیں، اور نہ ہی راستوں اور اپنے محلے گلیوں کی صفائی ستھرائی کا کوئی خیال کرتے ہیں، گھر کے باہر سڑک پر قربانی کرتے ہیں، خون غلاظت کو سڑک اور گلی میں ڈھیر کرتے ہیں، اور گوشت گھر کے ٹھنڈے فریج میں جمع کرکے سمجھتے ہیں کہ اللہ کو راضی کرلیا، اور قربانی کا فریضہ ادا ہوگیا۔ مہنگائی کے سیلاب کا ایک طوفانی ریلہ یکم جولائی سے ہمارا استقبال کرنے کو تیار ہے۔ سب سے بڑا حملہ تو نیپرا کی جانب سے ہے، جس نے بجلی کے نئے ٹیرف متعارف کرائے ہیں، جن کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا۔ رہائشی صارفین کی پانچ کیٹیگری کے لیے بجلی کے بلوں میں ماہانہ یونٹس کی کھپت کے لحاظ سے 200 روپے سے 1000 روپے ماہانہ چارجز مقرر کیے گئے ہیں اور اسی طرح کمرشل کے لیے 300 فی صد اور صنعتی صارفین کے لیے 355 فی صد تک اضافہ کردیا۔ بجلی کے بل کی ادائیگی عوام کی قوت برداشت سے باہر ہوگئی ہے، اور خون چوسنے والی اس جونک سے چھٹکارا مشکل ہوگیا ہے۔ اپوزیشن کے رہنما عمر ایوب نے اس بجٹ کو پاکستانی عوام کے خلاف ’’معاشی دہشت گردی‘‘ قرار دیا ہے۔ گو وہ خود تین مرتبہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے اس ’’معاشی دہشت گردی‘‘ کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کی مالی قرضوں کی امداد اس ملک کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہی ہے، اور اس میں سابقہ اور موجودہ حکومتوں کا ایک سا کردار ہے۔ وفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25 کے لیے 18.9 ٹریلین روپے کے بجٹ کا اعلان کیا ہے۔ جس میں شرح نمو کا ہدف 3.6 فی صد اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذریعے تقریباً 40 فی صد زیادہ وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے۔ خود حکومت کے معاشی اندازوں کے مطابق آئندہ سال مہنگائی 12 فی صد تک بڑھ جائے گی۔ ایک طرف ٹیکسوں کا بوجھ، دوسری طرف مہنگائی میں اضافہ، اور روپے کی قوت خرید میں مسلسل کمی عوام پر کس طرح حملہ آور ہوگی، اس کا اندازہ ابھی سے ہورہا ہے۔ اخبارات میں ایک اشتہار پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن نے شائع کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ 40 فی صد پاکستانی بچے جس کی عمر پانچ سال سے کم ہے، ان کی جسمانی نشو نما رک گئی ہے، اور 29 فی صد بچے ایسے ہیں، جن کا وزن ان کی عمر کے لحاظ سے کم ہے، ایسوسی ایشن نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ نئے بجٹ میں ڈبوں میں بند دودھ اور دودھ پورڈر پر عائد کیا جانے والا 18 فی صد سیلز ٹیکس واپس لیا جائے۔ ملک میں دودھ کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، وہ نئی نسل کے لیے خطرناک ہے، کراچی میں انتظامیہ نے دودھ کی قیمت میں یکمشت 20 روپے فی لیٹر کا اضافہ کرکے عوام خصوصاً بچوں اور بوڑھوں کو مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔ کراچی میں دودھ کی قیمت دوسو بیس روپے لیٹر کردی گئی ہے۔ ایسی ہی ایک اپیل پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے کی گئی ہے، جس میں صنعتی استحکام کی دھائی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انڈسٹریل الیکٹرک سٹی ٹیرف میں 10 روپے 69 پیسے کی چھوٹ دی جائے۔ اخباری تنظیم اے پی این ایس نے بھی ’’چھپائی یا تباہی‘‘ کے عنوان سے اپنے اشتہار میں کہا ہے کہ نیوز پرنٹ پر 10 فی صد جی ایس ٹی آزاد صحافت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ مجموعی طور پر اس بجٹ سے عوام پر جو مشکلات آنی ہیں اور آرہی ہیں، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد اب اس ملک سے مایوس ہورہی ہے، جو صاحب استطاعت ہیں وہ ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والے پاکستان اکنامک سروے 2023-24 کے مطابق روزگار کے لیے بیرون ملک جانے والے ہنر مند افراد کی تعداد سال 2023 میں 119 فی صد اضافے سے 45 ہزار 687 پر جا پہنچی جب کہ سال 2022 میں یہ تعداد 20 ہزار 865 تھی۔ اسی طرح 2023 کے دوران اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نیم ہنر مند ٹریڈز میں بھی 26.6 فی صد اور 2.28 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔ پاکستان بزنس کونسل نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد میں 119 فی صد اضافہ اس بات کا اظہار ہے کہ ملک سے برین ڈرین ہورہا ہے، بہت سے تجربہ کار اور اعلیٰ معیار کے پیشہ ور افراد ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ حکومت نے اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے کے مصداق اس بجٹ میں تنخواہ داروں کے ساتھ بھی ہاتھ کردیا ہے، اور نئے بجٹ میں ماہانہ 50 ہزار روپے سے زائد کمانے والے تمام افراد پر ٹیکس واجبات میں اضافہ کردیا ہے۔ ٹیکس کا یہ نظام ظالمانہ ہے، تنخواہ کی آمدنی پر مجموعی بنیاد پر ٹیکس لگای جانا، ایک بے ضابطگی ہے۔ اسے دور ہونا چاہیے۔