اس مرتبہ عیدالاضحی ایسے وقت آئی ہے جب گرمی اور لوڈ شیڈنگ پوری کوشش میں ہیں کہ ہماری شکلیں شناختی کارڈ والی تصویر جیسی ہوجائیں۔ تاہم پسینوں میں نہاتے ہوئے بھی گوشت کھانے میں کوئی کمی نہیں۔ زیادہ گوشت کھانے میں مسئلہ یہ ہے کہ گوشت کھاتے وقت جو لوگ داخلہ پالیسی کا خیال نہیں رکھتے ان کی خارجہ پالیسی خود مختار ہوجاتی ہے۔ جو اصحاب ڈائٹنگ پروگرام پر ہیں، عیدالاضحی ان کے ڈائٹ شیڈول کا بھی کباڑہ کردیتی ہے۔ ایک دوست ایک مہینے کے ڈائٹنگ پروگرام پر تھے۔ اس میں عیدالاضحی کے دن بھی شامل ہو گئے۔ ملاقات ہوئی۔ ہم نے پوچھا ’’کیا کم ہوا‘‘ بولے ’’تیس دن‘‘۔
زندگی گزارنے کا ایک ہی درست طریقہ ہے ’’درگزر‘‘۔ ہم نے غور کیا موٹیویشنل اسپیکر کی بات میں بڑا دم تھا۔ درگزر سے کام نہیں لیں گے تو محبت ختم ہوجائے گی، محبت ختم ہوجائے گی تو رشتے ٹوٹ جائیں گے، رشتے ٹوٹ جائیں گے تو فاصلے بڑھ جائیں گے، فاصلے بڑھ جائیں گے تو کوئی بقرعید پر گوشت بھی نہیں بھیجے گا۔
پچھلے دنوں ہم ایک شادی کی تقریب میں مدعو تھے۔ نکاح، کھانا سب کچھ مزے میں چل رہا تھا لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ آخر میں لڑکی والے دولہا کو مارنے پیٹنے پر تیار ہوگئے۔ رخصتی کے وقت دولہا کے موبائل فون بج اٹھا جس کی رنگ ٹون تھی۔۔۔ دل میں چھپا کے پیار کے ارمان لے چلے۔۔۔ ہم آج اپنی موت کا سامان لے چلے۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے میں بھی موت کے سامان پو شیدہ ہوتے ہیں۔ موت کے سامان ہوں یا نہ ہوں دوستوں کو بھگانے کے سامان ضرور ہوتے ہیں۔ بہتر ہے ایسے پر خور دوستوں سے ملیں تو پرفیوم کی بوتل یا ائر فریشنر ساتھ رکھا کریں۔
ایک ملازم نے عیدالفطر کی آمدکے موقع پر باس سے کہا ’’سر کیا مجھے کل کی چھٹی مل سکتی ہے، عید کی شاپنگ کے سلسلے میں بیگم کو بازار لے کر جانا ہے‘‘ ’’ہرگز نہیں‘‘ باس نے غصے سے کہا ’’دیکھ نہیں رہے ہو دفتر میں کتنا کام پڑ اہے‘‘ ’’بہت بہت شکریہ سر‘‘ ملازم نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔ عیدالاضحی پر یہ سہولت دستیاب نہیں۔ اگر آپ صاحب استطاعت ہیں اور ہر سال قربانی کرتے ہیں تو قدم ازخود مویشی منڈی کی طرف اٹھتے ہیں۔ ایک بار نہیں بار بار اٹھتے ہیں جب تک کہ آپ جانور گھر نہ لے آئیں۔ اس مرتبہ جانوروں کی قیمتیں اتنی زیادہ تھیں کہ الامان والحفیظ۔ رائی جیسے جثے والے جانور کی قیمت بھی پہاڑ جتنی تھی۔ بکروں دنبوں کی قیمتیں لاکھوں میں طلب کی جارہی تھی۔ گائیں اور بیلوں کی قیمتیں اس طرح بولی جارہی تھیں جیسے پراپرٹی کی خریداری ہورہی ہو، تین لاکھ چار لاکھ پانچ لاکھ۔۔۔ ایک ڈکٹیٹر کے بارے میں اس کی بیوی نے کہا تھا He lives five smiles away from me: اس مرتبہ جانوروں اور خریداروں کے مابین five miles سے زیادہ کا فاصلہ تھا۔ اس پر جانور بیچنے والوں کی بے نیازی غضب تھی۔ ہمیں ایک گائے پسند آئی۔ پہلی مرتبہ قیمت پوچھی، کوئی جواب نہیں، دوسری تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ صاحب موبائل فون میں الجھے رہے۔ چوتھی مرتبہ ہم نے کاندھا پکڑ کر ہلاتے ہوئے زور سے پوچھا ’’بھائی یہ گائے کتنے کی ہے؟‘‘ جواب آیا ’’ذراصبر کرو، ایزی لوڈ غلط نمبر پر سینڈ ہو گیا ہے‘‘
علامہ اقبال کی شاعری نے نئے ملک کا خواب دکھایا تھا جسے سب نے مل کر لوٹنا تھا۔ عیدالاضحی کے موقع پر پورے ملک کے تاجران مویشی اہل کراچی کو لوٹنے کے لیے کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ کاروبار سے سونا کیسے بنایا جاتا ہے اس سال کراچی میں عیدالاضحی پر نظر آگیا۔ کیسا ہی موقع ہو ہمارے یہاں کاروبار کا ایمان داری سے تعلق ایسے ہی کٹ گیا ہے جیسے کبڑا عاشق کے انتھونی کوئین کو دیکھنے کے بعد کوئین سے۔
مویشی فروخت کرنے والوں کو تو چھوڑیے جو سوزوکی اور ٹرک والے جانوروں کو منڈی سے گھروں تک پہنچا رہے تھے وہ بھی مہنگائی میں اضافے کا پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے کے چکر تھے۔ ملیر مویشی منڈی سے جیسے تیسے ایک گائیں خریدنے کے بعد بفرزون لے جانے کے لیے ہم نے ایک سوزوکی والے سے رابطہ کیا تو قصائی کے ہاتھوں گائے کا وصال ہونے سے پہلے ہمیں اپنا وصال ہوتا محسوس ہوا۔ کئی گھنٹوں تک متعدد ڈرائیوروں سے رابطہ کرنے کے بعد معاملہ طے ہوا کیونکہ تب تک بھاڑے کے ایک ہی طرح کے ریٹ سنتے سنتے ہم ذہنی طور پر ڈرائیوروں کے بتائے ہوئے بھاڑے سے قریب بلکہ بہت قریب آگئے تھے۔
ایک صاحب تھانے کے سامنے دیوار کو بیت الخلا کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ پولیس نے دیکھ لیا۔ پکڑ کر تھانے لے جانے لگی تو وہ صاحب ہنس کر بولے ’’ثبوت تو اٹھالو‘‘۔ عیدالاضحی کے ثبوت کئی کئی دن تک اس طرح اپنی بہار دکھاتے ہیں کہ گھر سے باہر نکلنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ بدبو تب تک چلتی ہے جب تک آپ کی سانس چلتی ہے اس کے بعد آپ عادی ہوجاتے ہیں یا پھر تب تک بدبو کے سامان اٹھا لیے جاتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے ’’ہم نے عالم اسلام میں کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں‘‘ لیکن اس کے باوجود گوشت کھانے کے معاملے میں امریکی بدنام زمانہ ہیں۔ اس معاملے میں صرف آسٹریلوی ہیں جو انہیں پچھاڑ سکتے ہیں۔ آسٹریلیا میں سالانہ فی کس 198.87 پائونڈ گوشت کھایا جاتا ہے جب کہ امریکا میں یہ مقدار 198.51 ہے۔ مسلم ممالک میں سب سے آگے سعودی عرب ہے جہاں سالانہ ہر شخص 118.72 پائونڈ گوشت کھاتا ہے۔ ملائیشیا اس سے تھوڑا سا پیچھے ہے جب کہ اس کے بعد ایران، ترکی، مصر، الجزائر اور سوڈان کے بعد پاکستان کا نمبر ہے جو 27.66 پائونڈز فی کس کے ساتھ 33ویں نمبر پر ہے۔
عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں، دوران قربانی استعمال ہونے والے لوازمات اور کولڈ ڈرنکس کے بعد جو چیز سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہے یا جس چیز کی زیادہ طلب ہوتی ہے وہ ہے ڈیپ فریزر۔ عیدالاضحی کے دو ہفتے بعد ایک آدمی نے خواب میں دیکھا کہ آسمان میں سب لوگوں کے قربانی کے جانور کھیل کود اور مستی کررہے ہیں لیکن اس کو اپنا جانور کہیں نظر نہیں آیا۔ وہ پریشان ہوکر اپنے جانو کو ڈھونڈنے لگا۔ کافی دیر بعد اس کو اپنا جانور مل گیا، زمین پر لیٹا اور پریشان حال۔ اس نے جانور سے پوچھا ’’تم کیوں لیٹے ہو، اٹھو باقی جانوروں کی طرح کھیل کود اور مستی کرو‘‘ جانور نے کہا ’’میں تین ٹانگوں کے ساتھ خاک کھیل کود اور مستی کروں‘‘ اس آدمی نے پوچھا ’’کیوں! تمہاری چوتھی ٹانگ کو کیا ہوا ہے؟‘‘ جانور نے بیچارگی سے کہا ’’وہ تو ابھی تک تمہارے فریج میں پڑی ہے‘‘۔
فریج اور ڈیپ فریزرکی آمد کے بعد وہ اقدار ختم ہوگئی ہیں جب ترک تعلقات کے باوجود بھی ایک دوسرے کے گھر قربانی کا گوشت بھیجا جاتا تھا۔ اب تو سارا گوشت سوئے فریج اور ڈیپ فریزر روانہ ہوجاتا ہے چاہے اگلے چھے ماہ تک بجلی کے 200 یونٹس کی لمٹ کراس ہوتی رہی۔ ہائے کیا دن تھے جب عیدالاضحی پر اہل محلہ اور رشتہ داروں کی گوشت بانٹنے کے لیے آمد کی وجہ سے دروازے کی کنڈی لگا تار بجتی رہتی تھی اور ہم لپک لپک کر جاتے تھے یہ سوچ کر شاید تم گوشت دینے آئی ہو۔
اک ملاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی
میں جسے عمر سمجھتا تھا وہ اک پل نکلا