دین اسلام میں خدمت خلق کی بہت اہمیت ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات اور رسول کریم کی تربیت کے نتیجے میں صحابہ کرام پر جو اثرات مرتب ہوئے تھے اس کے نتیجے میں انہوں نے دعوت دین کے ساتھ ساتھ خدمت خلق اور حقوق العباد کے حوالے سے معاشرے میں زبردست خدمات سر انجام دی تھیں، معاشرے کے مسائل کو انہوں نے حل بھی کیا تھا، جن میں غلام آزاد کرانا، لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچانا، یتیموں کے حقوق کی پاسداری وغیرہ، اس کے علاوہ شراب نوشی، عریانی، فریب، جھوٹ، لوٹ مار اور قتل و غارت وغیرہ جیسے جرائم کا خاتمہ، اسی طرح غریبوں، بے سہاروں، یتیموں، بیواؤں کے لیے بیت المال کے ذریعہ مالی امداد، یہ چیدہ چیدہ، دیگر اور نمایاں کام سر انجام دیے گئے۔ اللہ کے رسولؐ نے انسانی آبادی کو اللہ کا کنبہ قرار دیا اور فرمایا پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کو وہی شخص پسند ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ رسول کریمؐ نے جب اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تو سیدہ خدیجہؓ نے نہ صرف آپ کے دعوے کی تصدیق کی بلکہ آپ کو تسلی دی کہ یا رسول اللہ، خدا آپ کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑے گا کیونکہ آپ قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں، حق کی طرف داری کرتے ہیں، مصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں، یعنی نبوت سے پہلے مکہ میں رسول اللہ کی خدمت خلق کے حوالے سے پہچان اور شہرت تھی۔ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہو‘‘، اللہ کے رسول کا مسلمانوں کو حکم کا مفہوم ہے کہ وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کریں اور اس پر بطور مشن اپنا وقت، صلاحیتیں اور مال لوگوں پر خرچ کریں تاکہ انہیں دنیا میں بھی عروج حاصل ہو اور آخرت میں نجات کے طلب گار بن سکیں۔
عوام الناس کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا اور لوگوں کو زندگی بسر کرنے کے لیے آسانیاں اور سہولتیں بہم پہنچانا حکمران وقت کا فریضہ ہے، لیکن عام عوام کی شومئی قسمت ہے کہ انہیں اب تک کوئی بھی ایسا حکمران میسر نہیں آیا ہے جو خود ان ہی کے طبقے سے ہو، ان کے مسائل سمجھتا بھی ہو اور حل کرنے کا اہل بھی ہو۔
سید مودودی نے بحیثیت مسلمان اپنا فرض منصبی سمجھا اور قرآن و سنت کے احکامات سے ماخوذ چار تصورات، تقویٰ کی فضیلت، علم کی فضیلت، باطن میں نفس اور خارج میں قومی سطح سے کل عالم میں طاغوت کی مزاحمت، مسلمانوں اور وسیع بڑے طبقے میں انسانیت کی بے لوث خدمت، یہ جماعت اسلامی کے قائم کرنے کے بنیادی نکات تھے۔ اخلاص اور حسن نیت اسی کو کہتے ہیں ورنہ کسے معلوم تھا 1941 میں 75 افراد اور تقریباً اتنے ہی روپوں سے قائم جماعت، صلے و ستائش سے بے پروا سرفروشوں کی بڑی تعداد میں ڈھل جائے گی جو قرآن و حدیث کی تعلیمات کے نتیجے میں انسانوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار، ضرورت مندوں کی خدمت کے لیے ان کی پریشانیوں کے حل کے لیے للہ فی اللہ خدمات سر انجام دینے والے ہوں گے۔
مولانا مودودی نے نفاذ شریعت اسلامی کے مشن کے لیے حالات کے مطابق تن تنہا ایک منصوبہ تیار کیا، اپنے علم اور تقویٰ کی بنیاد پر وہ لٹریچر تیار کیا جو اس عظیم کام کے لیے صرف ذہن سازی کرکے رک نہ جائے بلکہ ایک تحریک پیدا کردے، اس اعلیٰ و ارفع مشن کے لیے باقاعدہ ایک منظم جماعت قائم کرکے دکھادی تاکہ لوگ عملی طور سے جوق در جوق اس کام کے لیے شانہ بشانہ عملی جدو جہد میں شامل ہوں اور اس مشن کے لیے ہمہ وقت متحرک رہیں، یہی تحریک اسلامی کا بنیادی وصف ہے جو اسے دیگر سیاسی، مذہبی اور دینی جماعتوں سے ممیز کرتا ہے۔ دوسرا وصف انسانیت کی خدمت کے حوالے سے رضائے الٰہی کے لیے ستمبر 1947 میں جماعت اسلامی کے خدمت خلق کے کاموں کا آغاز لاہور میں آنے والے لٹے پٹے اور زخمی مہاجرین کے لیے قائم والٹن کیمپ اور اسپتال (ہوائی اڈہ) سے ہوا-الحمدللہ اب خدمت خلق کا کام مختلف جہتوں میں بہت وسعت پکڑ چکا ہے، الخدمت کے تحت، رفاہی اور فلاحی سرگرمیوں کا سلسلہ اللہ کے فضل و کرم سے، اہل خیر اور عوام کے تعاون سے جاری و ساری ہے۔ جماعت اسلامی اور الخدمت نے غریب اور کمزور کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا، یہ غریبوں اور عام آدمی کے خدمت گار ہیں، الخدمت جن میدانوں میں سرگرم عمل ہے اس کی تفصیلات ان شااللہ آئندہ پھرکبھی، لیکن یہ کہے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بے شمار شعبہ زندگی میں ریکارڈ خدمات سر انجام دی جا رہی ہیں۔
مولانا مودودی نے اپنے رفقا میں وہ روح پھونک دی جو سیاسی جدوجہد کے ساتھ خدمت انسانیت کے لیے بھی دیوانہ وار خدمات سر انجام دیتے ہیں، اس کا اظہار گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی اجتماعی قربانی اور چرم قربانی کے موقع پر ہوا۔ یہ جماعت اور جمعیت کے کارکن الخدمت کے رضا کار ہیں۔اس ملک کے کروڑوں باسیوں کے ساتھ آسمان دنیا بھی کئی دہائیوں سے ان رضاکاروں کی خدمات ان کے بچپن لڑکپن جوانی اور بڑھاپے میں دیکھنے کا شاہد ہے، ان میں کئی اپنے ربّ کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور کئی اپنی جوانیاں اس خدمت خلق کے کار عظیم میں لٹا کر اب بڑھاپے کی کسی نہ کسی منزل میں ہیں۔ الخدمت کے ان رضاکاروں کے جذبے بیدار اور توانا، سورج کی روشنی بکھیرتی کرنوں کی طرح اور چاندنی رات میں، رات کی رانی کے پھولوں کی مہکار کی طرح یہ جذبے الحمدللہ، نہ ماند پڑے ہیں نہ سرد ہو سکے ہیں، یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے جیسے مختلف دریا کے دھارے سمندر میں آ کر گرتے ہیں اور قافلہ بھی سیل رواں کی طرح جاری و ساری ہے، ان سر فروشوں نے ہمیشہ اہل وطن پر اپنی خوشیوں اور راحتوں کو قربان کیا ہے، انہوں نے دن کو دن نہیں جانا اور رات کو رات۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی ملک بھر میں عید الاضحی کے موقع پر اجتماعی قربانی اور قربان گاہ کا انتظام کیا گیا تاکہ لوگ یہ مذہبی فریضہ آسانی سے انجام دے سکیں، اس کے ساتھ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے قاہرہ، غزہ، القدس، لبنان اور پاکستان میں قربانیاں کی گئیں۔ بظاہر تو یہ چند سطروں پر مشتمل داستان ہے، لیکن اس کہانی کے پیچھے ہزاروں کی تعداد میں جماعت اور جمعیت کے رضا کار اور ہفتوں پر محیط کاوشیں ہیں۔
اگر صرف مہم چرم قربانی اور اجتماعی قربانی کی بات کی جائے تو بظاہر یہ کام تین دن پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس کی منصوبہ بندی عیدالاضحی سے کئی ہفتوں قبل کی جاتی ہے اور کام شروع کر دیا جاتا ہے، اسی طرح عید الاضحی کے تین دن اور رات کی مصروفیات کے بعد بھی کھالوں کی حفاظت ان کی فروخت اور قربانی کے حصہ داروں کی ادائیگیوں کے حساب کے بعد بچ جانے والی رقم کی حصہ داروں کو واپسی ایک عرصے پر محیط ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں بلدیاتی محکموں اور ٹاؤنز میں جماعت اسلامی کا عمل دخل ہے وہاں اگر صرف کراچی کی حد تک بات کریں، کھالیں جمع کرنے سے لے کر یو سی کے تحت آلائیشیں اٹھوانے، گلی کوچوں کی صفائی، چونا ڈالنے اور اسپرے کرانے تک کے مراحل، اس بات کی گواہی ہے کہ یہ بے لوث کارکنان بغیر کسی دنیاوی لالچ کے محض اپنے ربّ کی خوشنودی کے لیے اپنی گھریلو، ذاتی مصروفیات اور خوشیاں چھوڑ کر اس کام میں مگن رہے۔
چرم قربانی کی فروخت سے حاصل رقم غریبوں، ضرورت مندوں اور بے سہاروں کے لیے ایک بہت بڑا سہارا ہے۔ کسی کے لیے سہارا بننا، کسی کی کوئی حاجت پوری کرنا اسوہ رسول ہے اور اس کی پیروی میں کھالیں جمع کرنا دراصل یہ بڑے اعزاز کی بات ہے۔ قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہوئے پورے ملک میں ان رضا کاروں کے خون میں لتھڑے ہوئے ہاتھ پیر اور کپڑوں اور ان کی سواریوں کو دیکھیے، وقت کے ساتھ شدید گرمی میں کھالوں کی بڑھتی ہوئی عفونت کو ذرا محسوس کیجیے، آفرین ہے جماعت اور جمعیت کے الخدمت رضاکاروں پر، فی زمانہ یہ زمین کا نمک اور پہاڑی کے چراغ ہیں، لیکن کیا واقعی حیرت کی بات نہیں ہوگی اگر مجموعی طور سے ہمارے صحافی، ٹی وی اینکرز، میڈیا، اور بحیثیت فرد ہم اور ہمارامعاشرہ ان سعید روحوں اور جذبوں کو نظر انداز کر جائے اور ستائش تک میں بھی بخل سے کام لیا جائے۔