بلدیہ عظمیٰ کراچی کا مالی سال 2024.25 کے لیے 49ارب 70کروڑ 18لاکھ روپے کا بجٹ اکثریت کی بنیاد پر منظور کرالیا گیا، بجٹ 9کروڑ 99لاکھ روپے سرپلس ظاہر کیا گیا ہے، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بجٹ پیش کیا۔ اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن ارکان میئر کے سامنے آگئے۔ اور قبضہ میئر نامنظور، کراچی کو پانی دو کے نعرے لگائے۔ حزب اختلاف نے بجٹ مسترد کردیا اور اس پر10نکاتی وائٹ پیپر جاری کردیا، بجٹ میں فنڈز و آمدنی کا تخمینہ 49ارب 70کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ اور اخراجات کا تخمینہ 49ارب 60کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کی تنخواہ میں 25فی صد اور گریڈ 17 سے 21 تک کی تنخواہوں میں 22 فی صد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ بلدیہ کے ان ملازمین کی اکثریت پیپلز پارٹی کے سفارشی لوگوں پر مشتمل ہے اس لیے ان کی تنخواہوں میں فیاضی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں کے ایم سی کے ریٹارڈ ملازمین کی پنشن میں 15فی صد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ کے ایم سی بجٹ 2024.25۔ ریونیو تخمینہ 49ارب 70کروڑ روپے۔ بجٹ میں ریونیو سے زیادہ فنڈز پر انحصار کیا گیا ہے۔ اس میں حکومت سے گرانٹ اور فنڈز کا تخمینہ 25ارب روپے ہے ڈسٹرکٹ اے ڈی پی کی مد میں 9 ارب 16کروڑ روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کلک ورلڈ بینک منصوبے کے لیے 6ارب 47کروڑ روپے وصولی کی مد میں رکھے گئے ہیں، یعنی 49 ارب میں سے 32 ارب کے لگ بھگ گرانٹ اور امداد ہوں گے جبکہ انفورسمنٹ اینٹی انکروچمنٹ سے ریونیو وصولی کا تخمینہ 23کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ 31کروڑ، کچی آبادی 17کروڑ، پی ڈی اورنگی سے 20 کروڑ ریونیو وصولی تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جو کراچی کے حجم کے مقابلے میں بہت کم ہے، اسی طرح چارچڈ پارکنگ سے صرف 15کروڑ کا تخمینہ لگایا گیا ہے، انفورسمنٹ امپلی منٹیشن سے 17کروڑ ریونیو تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ایک اور قابل اعتراض مد ایم یو سی ٹی ہے جس سے 2ارب ریونیو وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کے الیکٹرک سے واجبات کی وصولی کی مد میں 1ارب 85 کروڑ روپے ریونیو وصولی تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ یہ ایک ارب پچاسی کروڑ سابق برس کے واجب ہیں۔ جب گزشتہ برس کے اب تک نہیں ملے تو میونسپل ٹیکس کے کیسے مل جائیں گے، کے الیکٹرک ڈیفالٹ ہے جو ڈیفالٹ کی بجلی کاٹ دیتی ہے اس کو مزید دو ارب کیوں حوالے کیے جارہے ہیں لیکن بلدیہ کے مئیر کے منصب پر براجمان صاحب اس کا جواب نہیں دے سکتے کیونکہ یہ ان سے اوپر کا معاملہ ہے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں منتخب ہاؤس کے بجائے کسی اور ہائوس میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایڈورٹائزمنٹ کی مد میں صرف 50کروڑ روپے ریونیو وصولی تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سٹی کونسل میں اپوزیشن نے بجٹ پر 10نکاتی وائٹ پیپر جاری کیا ہے جس کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی کا بجٹ مکمل طور پر اخراجاتی بنیاد پر بنایا گیا ہے اور بجٹ میں ریونیو کے تمام اکائونٹس کا تخمینہ انتہائی کم لگایا گیا ہے۔ وائٹ پیپر کے مطابق کراچی کی 246 یونین کمیٹیز کے لیے ایک بھی نئی اسکیم کو شامل نہیں کیا گیا، منتخب چیئرمین و کونسل اراکین کے لیے کسی قسم کا ترقیاتی فنڈ نہیں رکھا گیا۔ وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ صوبائی، ورلڈ بینک قرضوں کیے علاوہ بلدیہ کوئی خاطرخواہ ترقیاتی فنڈ رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے، بلدیہ کے بجٹ کا 82 فی صد حصہ قرضوں اور گرانٹس کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ وائٹ پیپر کے مطابق چارجڈ پارکنگ کی مد میں سالانہ آمدنی صرف 15.9 کروڑ روپے ظاہرکی گئی ہے جبکہ شہر بھر میں 83 پارکنگ سائٹ موجود ہیں، فی سائٹ اوسط یومیہ آمدنی محض 6 ہزار روپے بن رہی ہے۔ اشتہارات کی مد میں اس سال آمدنی میں محض ایک لاکھ روپے کا اضافہ ظاہرکیا گیا ہے جبکہ شہر میں 106 شاہراہیں بلدیہ کے ماتحت ہیں، ان تمام شاہراہوں پر اشتہارات لگائے جاتے ہیں، اس کی کل آمدن انتہائی کم ظاہر کی جارہی ہے۔ اپوزیشن کے وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ہاکس بے پر 99 ہٹ ہیں، شہر بھر میں11 پٹرول پمپ موجود ہیں، بجٹ میں اس کی کوئی واضح تفصیل نہیں۔ وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک سے ایک ارب 85کروڑ روپے بلدیہ نے گزشتہ سال وصول کرنے تھے، اس سال بھی اس رقم کو برقرار رکھا گیا ہے، اپوزیشن نے سوال کیا ہے کہ مرتضیٰ وہاب جواب دیں کے الیکٹرک سے اتنی بڑی رقم کیوں وصول نہیں کی گئی۔ کراچی میڈیکل کالج کے لیے ایک مرتبہ پھر وہی 50 کروڑ کی روایتی گرانٹ رکھی گئی ہے، رواں سال اس کالج کویونیورسٹی بننا ہے، اتنے کم بجٹ سے یہ کام ممکن نہیں۔ رواں سال کا بلدیہ کراچی کا بجٹ پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے دسویں بڑے شہر کا بجٹ ہرگز نہیں لگ رہا۔ اپوزیشن کے ٹاونز اور یوسیز کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے، صرف وزیر بلدیات کے حلقہ انتخاب کو نوازا گیا ہے اور جو فنڈ اس علاقے کو دیے جاچکے ہیں وہ کسی جگہ لگتے نظر نہیں آرہے، اوپر سندھ حکومت ہے جس نے کراچی کے تمام وسائل پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے، لیکن کراچی کو کچھ نہیں مل رہا۔ اس بجٹ سے کراچی کی ترقی کا کوئی کام ہونے کا امکان نہیں، بلکہ اس بلدیاتی قیادت سے کراچی کے لیے خیر کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی شکایات الیکشن کمیشن میں ہیں عدالتوں کے پاس ہیں لیکن انہوں نے جس طرح اب تک وقت گزار دیا ہے باقی وقت بھی گزار دیں گے، یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ الیکشن کمیشن اور عدالتیں بھی کسی جانب سے فیصلے کے انتظار میں ہیں وہاں سے کچھ بتایا جائے تو آگے بڑھیں۔ اس طرح ملک نہیں چلتے صرف تباہ ہوتے ہیں۔