قوم سے اپنے حالیہ خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے یہ پروگرام پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگرام ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ایسے تمام ادارے جو کرپشن کا مرکز بن چکے ہیں ان کا خاتمہ فرض بن چکا ہے‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ اس موقع پر ایک مرتبہ پھر سے حسب سابق مرزا اسد اللہ خان غالب یاد آگئے۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
وطن عزیز کے ابتر حالات ہیں کہ ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ اہل وطن کی اکثریت شدید مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی سمیت دیگر گوناگوں مسائل اور مصائب کے ہاتھوں بہت زیادہ پریشان ہے۔ ایک بے چارہ عام فرد غالب ہی کے الفاظ میں لوح جہاں پر حرف مکرر نہ ہونے کے باوجود حکمراں طبقہ کے استحصال اور استیصال کی بنا پر بے دردی سے مٹایا جارہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب عوام کو اپنے حکمران طبقے کے کسی بھی وعدے، تقریر یا بیان پر رتی برابر بھی کوئی اعتبار نہیں رہا ہے۔ ایک عام فرد اس جدید، سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں بھی مسائل اور تکالیف کے جس گرداب میں گرفتار ہے ہمارے ارباب اختیار کو اس حوالے سے کوئی ادراک ہے اور نہ ہی کوئی شعور۔ آج ملک کا شاید ہی کوئی باشندہ ایسا ہوگا جو غالب کے اس شعر کی عملی تفسیر نہ بن چکا ہوگا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
یوں تو ملک بھر کے عوام ہی اپنی پُر مصائب زندگی کے ہاتھوں سے تنگ، عاجز اور بیزار آچکے ہیں لیکن وطن عزیز کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کے باشندوں کے دُکھ تو کچھ اور بھی سوا ہیں۔ اب تو اس حوالے سے بار بار لکھ کر جی بھی ایک طرح سے اوب سا جاتا ہے اور ایک طرح کی عجیب سی اُکتاہٹ بلکہ شرمندگی تک دامن گیر ہونے لگتی ہے۔ صوبہ سندھ میں عوام تو جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں سے غیر محفوظ تھے ہی، لیکن اب تو بے چارے بے زبان اور معصوم جانور تک بھی سنگ دل اور ظالم افراد کے ہاتھوں ستائے اور زخمی کیے جانے لگے ہیں۔ آئے دن کسی گائے، بھینس، بکری وغیرہ کے کسی بااثر وڈیرے کے کھیت میں جانے کی وجہ سے ان کے غریب مالک یا جانور کے وڈیرے کے کارندوں کے ہاتھوں بذریعہ تشدد زخمی ہونے کی افسوسناک اطلاعات سندھ کے مختلف مقامات سے سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہفتہ رفتہ تو اس وقت انتہا ہوگئی۔ جب ضلع سانگھڑ کے ایک گوٹھ جمڑائو کھنڈ میں ایک اونٹ کے بچے (اونٹنی) کے ایک بااثر مقامی وڈیرے کے کارندوں کے ہاتھوں کھیت میں داخل ہونے کی پاداش میں اس کی ایک اگلی ٹانگ بڑی بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ کاٹ دی گئی۔ یہ المناک خبر بذریعہ سوشل میڈیا فوراً سندھ بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور عوامی سطح پر شدید ردعمل آنے کی وجہ سے ظالم وڈیرے اور اس کے ایما پر معصوم بے زبان اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے والے 6 کارندوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ بعدازاں وڈیرے کو تو پولیس نے رہا کردیا البتہ 6 کارندے تاحال پولیس کی تحویل میں ہیں اور ان پر مقدمہ کا اندراج بھی (اخباری اطلاعات کے مطابق) کیا جاچکا ہے۔ اب دیکھیے انہیں ان کے کیے کی سزا بھی ملتی ہے یا پھر وہ بھی ظالم وڈیرے کی طرح آزاد ہوجاتے ہیں۔ غالب یہاں بھی یاد آگئے ہیں۔
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
اہل سندھ بجا طور پر اس وقت اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اندرون خانہ پولیس، انتظامیہ اور وڈیرے کے دبائو کی وجہ سے ٹانگ سے محروم کردہ معصوم بے زبان اونٹ کے بچے کو زخمی کرنے، اس کی ٹانگ کاٹ کر شدید اذیت اور تکلیف سے دوچار کرنے والے ملزمان کو تھوڑے ہی عرصے کے بعد رہا کروالیا جائے گا اور بے چارہ مالک اوپر مذکورہ تینوں بااثر عناصر کے پریشر، ترغیب اور تحریض کو بیک وقت برداشت نہ کرنے کی بنا پر بالآخر اس کیس ہی سے دستبردار ہوجائے گا۔ سومربھن نامی اونٹنی کے مالک پر سندھی پرنٹ، سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے مطابق پولیس، انتظامیہ اور مقامی بااثر افراد کا بہت زیادہ دبائو ہے کہ وہ مذکورہ کیس سے اپنا ہاتھ اٹھالے۔ کیس سے دستبردار ہونے کے لیے ہی بااثر مقامی وڈیروں کی جانب سے دی جانے والی خطرناک دھمکیوں کی دہائی تو گزشتہ دن ہی، چند دن پہلے شہید صحافت نصر اللہ گڈانی کی والدہ نے بھی دی ہے۔ بروز جمعتہ المبارک 21 جون کو یہ افسوسناک خبر تمام معروف سندھی اخبارات میں نمایاں انداز سے چھپی ہے کہ ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے شہید صحافی نصر اللہ گڈانی کی والدہ مسمات بٹھانی نے میرپور ماتھیلو کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دوران سماعت یہ دہائی دی کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو بااثر مقامی وڈیرے اس کیس سے دستبردار نہ ہونے کی صورت میں خطرناک انجام سے دوچار کرنے کے لیے مسلسل دھمکیاں بھجوا رہے ہیں۔ یہ کتنی المناک بات ہے کہ قانون عدل وار انصاف نہ ہونے کی وجہ سے کس طرح مقتول صحافی کے ورثا کو قتل میں ملوث ملزمان ہراساں اور پریشان کررہے ہیں۔ قانون کی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے ہی صوبہ سندھ میں مسلسل بے لگام ہوجانے والی بدامنی، اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت گری، قبائلی خون ریز لڑائیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے کہ قبائلی دشمنی کے نتیجے میں اب خواتین، بچوں اور بچیوں تک کو بھی قتل کرنے کا افسوسناک رجحان بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ عید سے صرف ایک دن قبل اپنے والدین کے ہمراہ شاپنگ کے لیے جانے والی 12 برس کی شازیہ راجپر کی اپنے والدین کے ہمراہ کوٹ لالو کے مقام پر دیرینہ دشمنی میں فائرنگ کے نتیجے میں دردناک قتل کے سانحے نے تمام اہل سندھ ہی کا کلیجہ ایک طرح سے چیر کے رکھ دیا ہے اور اس کی ہر سطح پر تاحال شدید مذمت کی جارہی ہے۔ ایسے میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا یہ بیان کہ سندھ میں اب جرائم پیشہ عناصر پولیس کی کارروائیوں کی وجہ سے سخت دبائو میں ہیں، ایک طرح سے ان کے لیے جگ ہنسائی کا
باعث بن گیا ہے جس دن (یعنی 21 جون) کو سندھی اخبارات میں ان کا یہ بیان صفحہ اوّل پر طبع ہوا ہے اور اسی دن جیکب آباد سمیت سندھ بھر میں اغوا برائے تاوان، قتل و غارت گری اور دیگر جرائم کی متعدد خبریں بھی اسی صفحہ پر طبع ہو کر ان کا منہ چڑا رہی ہیں۔ اس سارے المناک اور دل گرفتہ کر دینے والے منظرنامے میں غیر قانونی منعقدہ جرگوں کا انعقاد بھی تسلسل کے ساتھ بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ چند دن قبل ہی نازیہ چنا نامی 14 برس کی معصوم بچی کو 8 ماہ قبل اپنی درندگی کا نشانہ بنانے ولے 6 ملزمان مقامی جرگے کے فیصلے میں کیے گئے 50 لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی کے بعد رہا کیے جاچکے ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ بچی جس کا تعلق ضلع قمبر شہداد کوٹ سے تھا بعدازاں کراچی کے مقامی اسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔ اسی طرح سے چند ماہ قبل قبائلی دشمنی میں زرداری قبیلے کے ہاتھوں قتل ہونے والے مقتولین کے ورثا کو کچھ عرصے پہلے ہی 5 کروڑ روپے کی رقم بطور جرمانہ نواب شاہ میں منعقدہ جرگے میں کیے گئے فیصلے کے بعد ادائیگی کرکے ملزمان پاک اور پوتر بن چکے ہیں۔ رانی پور کے پیروں کی حویلی میں زیادتی اور تشدد کے بعد قتل کی جانے والی معصوم بچی 14 برس کی فاطمہ کے والدین بھی مسلسل بذریعہ میڈیا یہ دہائی دے رہے ہیں کہ انہیں بااثر ملزمان کیس سے دستبردار ہونے اور بذریعہ جرگہ فیصلہ کرانے کے لیے سخت دبائو ڈال رہے ہیں۔ تین برس قبل پی پی پی کے سابق ایم پی اے اور ایم این اے کے ایما پر بہیمانہ انداز میں قتل ہونے والے اور شہید ماحولیات کا لقب پانے والے ناظم جوکھیو کے اصل قاتل بھی ورثا پر دھونس، ترغیب اور تحریص کے توسط سے انہیں اس کیس سے دستبردار کروانے کے بعد آزاد فضائوں میں ایک مرتبہ پھر سے من مانی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
سندھ میں عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ 2004ء میں غیر قانونی جرگوں کے انعقاد پر پابندی عائد کرچکی ہیں، تاہم یہ غیر قانونی سلسلہ بدستور پولیس، انتظامیہ اور مقامی وڈیروں کی زیر سرپرستی زور و شور سے چل رہا ہے اور کوئی بھی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔ آج ہی جیکب آباد میں پرانی دشمنی کے سبب منیر احمد اور حیات پھوڑ نامی شخص کو قتل کیا گیا ہے۔ سندھ میں قبائلی جھگڑوں کو تقویت دینے والا بھوتار اور جاگیردارانہ کلچر ہے اور پولیس کے ساتھ مل کر وڈیروں نے جرگوں کے توسط سے اپنے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ معاش دریافت کرلیا ہے۔ دونوں یا ایک فریق پر جو بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے غیر قانونی منعقدہ جرگوں میں اس کا ایک معتدبہ حصہ فیصلہ کرنے والے وڈیرے اور مقامی پولیس افسران کو بھی (مبینہ طور پر) ملا کرتا ہے۔ عرصہ 20 برس پہلے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پابندی کے باوجود غیر قانونی جرگوں کا سرکاری سرپرستی میں انعقاد قانون کا مذاق اُڑانے کا ایک واضح مظہر ہے۔ کل کے تمام سندھی اخبارات میں بڑے نمایاں انداز میں صفحہ اوّل پر شائع شدہ ایک خبر کے مطابق ’’ایک اور خون خاک نشیناں رزق خاک‘‘ ہونے والا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک اجلاس سندھ کی حکمران جماعت کی اہم ترین شخصیات کی سرپرستی میں منعقد کیا گیا۔ جس کے بعد ایک منت میڑھ قافلے نے ہر دو متحارب قبائل کے بڑوں سے ملاقات کی جس میں بالآخر یہ طے ہوا ہے کہ کچھ عرصے پہلے ڈاکٹر اجمل ساوند سمیت ساوند سندرانی قبائلی جھگڑے میں قتل ہونے والے 30 سے زائد افراد کے قتل کا فیصلہ 4 جولائی کو کیا جائے گا اور اس فیصلے کے لیے خورشید شاہ سمیت سندھ کی حکمران جماعت کے رہنمائوں نے ہر دو فریقین کو رضا مند بھی کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر اجمل ساوند جو ضلع کندھ کوٹ کشمور کی حدود میں قتل ہوئے تھے ان کے خون ناحق کے خلاف سندھ بھر میں زبردست احتجاج ہوا تھا اور ایک انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اسکالر ڈاکٹر اجمل ساوند کے قبائلی دشمنی میں خون ناحق کا اظہار افسوس ملک گیر بلکہ عالمگیر سطح پر کیا گیا تھا۔ اب سردار علی گوہر قمر 4 جولائی کو ایک بہت بڑے مبینہ طور پر حکومت سندھ کی سرپرستی میں منعقدہ جرگے میں ڈاکٹر اجمل ساوند کے خون ناحق سمیت دیگر مقتولین کے قتل کا بھی فیصلہ کریں گے۔ معلوم نہیں کیوں اس موقع پر بے اختیار میر کس لیے یاد آگئے ہیں۔
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے