تبت سے امریکا کا چین پر حملے کی تیاری

312

امریکی سی آئی اے پلان کے تحت دلائی لامہ امریکا پہنچ چکے ہیں۔ جس کے بعد امریکا تبت پلان میں تیزی آچکی ہے۔ امریکا اور چین دونوں کے مفاد تبت میں ہیں اسی لیے دلائی لامہ امریکا میں نئے دلائی لامہ کا اعلان یا اس کے مل جانے اطلاعات بھی بہت جلد دنیا کو دیں گے۔ لیکن یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ دلائی لامہ کو اگر امریکا جانا ہی تھا تو روانگی سے صرف دو دن قبل ایسی کیا ضرورت پیدا ہوگئی یا کی گئی کہ تبت سے متعلق امریکی کانگریس میں بل کی منظوری کے بعد امریکی قانون سازوں کا دھرم شالہ کا دورہ اور دلائی لامہ سے ملاقات کرائی گئی۔ اس کے کیا مقاصد ہیں اس بارے میں امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی بل چین کی حکومت کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے ایک پیغام ہے جو تبت کی آزادی کے مسئلے پر ہماری سوچ کی وضاحت کرتا ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن جلد ہی اس قانون پر دستخط کر دیں گے، جسے تبت ایکٹ کہا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ امریکا اس لیے کر رہا ہے کہ وہ تبت سے چین پر حملے کرنا چاہتا ہے اس سلسلے میں بھارت اور نیپال کی سرزمین بھی استعمال کر سکتا ہے۔

بھارتی علاقے ہما چل پر دیش میں قائم دھرم شالہ میں جہاں 1959ء سے جلا وطن تبتی حکومت قائم ہے، امریکا کا کہنا ہے کہ امریکی قانون سازوں کے دورے سے تبت کے آزاد ی کے لیے جدو جہد کرنے والوں کو توقعات پیدا ہوئی ہیں۔ سینٹرل تبت انتظامیہ کے ترجمان تنزین لیکشے نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام تبتیوں کے لیے خوشی کا لمحہ ہے۔ ہم سب بہت خوش ہیں اور بل کی منظوری کے بعد یہ دورہ بہت اہم ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ یہ بل جلد ہی قانون بن جائے گا۔ سات رکنی امریکی وفد کی قیادت کانگریس مین مائیکل میک کول نے کی۔ ان کا بل کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ تبتیوں کے حق خودارادیت کے لیے امریکی حمایت کی تصدیق کرتا ہے۔

دھرم شالہ بھارت کے ہمالیائی علاقے میں واقع ہے جہاں 1959 سے اپنی جلاوطنی کے بعد دلائی لامہ قیام پزیر ہیں۔ دلائی لامہ تبتیوں کے روحانی پیشوا کہلا تے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ تبت کے لیے زیادہ خودمختاری کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ چین دلائی لامہ کو علٰیحدگی پسند قرار دیتا ہے۔ دلائی لامہ کے نمائندوں اور چین کے درمیان مذاکرات 2010 سے منقطع ہیں۔ دلائی لامہ تبتیوں کے روحانی پیشوا ہونے کے باوجود تبت میں پائے جانے والے بدھسٹ کے مذہبی گروپس تیرا وعدہ 56فی صد، مہایانہ 38 فی صد کی حمایت سے محروم ہیں۔ دلائی لامہ کو بدھسٹ کے وجریانہ شاخوں کے فرقے کی حمایت حاصل جن تعداد بدھسٹ میں صرف 6فی صد ہے۔ اس خطے پر چین کی نظر کیوں ہے اس سلسلے میں نے جسارت میں 30دسمبر 2020 چھپنے والے کالم میں لکھا تھا کہ:

’’مائوزے تنگ‘‘ کا کہنا تھا کہ تبّت ایک ہاتھ کی مانند ہے جس کی انگلیاں اس کے دریا ہیں اور ہتھیلی اس کی سرزمین، اس لیے ہتھیلی پر جس کا قبضہ ہو گا وہی علاقے کا راجا ہو گا۔ بیجنگ نے اس راج کو قائم رکھنے کے لیے اپنی فوج کی مدد سے 1951 میں تبّت کو پرامن طور پر آزاد کروایا تھا لیکن علاقے کے بہت سے شہری چین کی مرکزی حکومت پر الزام لگاتے ہیں وہ ان کے مذہبی استحصال اور ان کی تہذیب کو ختم کرنے میں ملوث ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق تبّت کے شہریوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے اور کسی بھی غیرچینی شناخت کی علامتیں سامنے آنے کی صورت میں جیل اور بدسلوکی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ غیرچینی شناختوں میں دلائی لامہ کی تصاویر بھی شامل ہیں۔

اس پوری صورتحال میں بھارت کا ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ اس نے ایک طرف امریکا کو کھلی چھوٹ دی ہے کہ وہ دلائی لامہ سے مل کر جس قدر چاہیں چین کو دھمکیاں دیتے رہیں۔ لیکن پانچ سال پہلے جب جلاوطن حکومت کی 60 ویں سالگرہ کا جشن ہو رہا تھا تو انڈین حکومت نے سبھی وزرا اور افسروں سے کہا تھا کہ اس جشن کی تقاریب سے دْور رہیں۔ اس سے پیغام یہ دینا تھا کہ بھارت چین کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں چاہتا۔ چین نے امریکی قانون سازوں کی دلائی لامہ سے ملاقات پر تنقید کی ہے۔ چین تبت کے روحانی رہنما کو علٰیحدگی اور تقسیم پسند قرار دیتا ہے۔ اس دورے سے قبل گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس نے ایک بل کی منظوری دی تھی جس میں بیجنگ اور تبت کے جلاوطن رہنماؤں کے درمیان بات چیت کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی اور ساتھ ہی یہ کہا گیا تھا کی تبتی رہنما اپنے علاقے کے لیے مزید خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور چین سے ان سے ملاقات کر چاہیے۔ دلائی لامہ کے نمائندوں اور چین کے درمیان بات چیت کا سلسلہ 2010 میں منقطع ہو گیا تھا۔

بیجنگ نے کہا ہے کہ امریکی صدر کو کانگریس کے منظور کردہ بل پر دستخط نہیں کرنے چاہئیں۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے گزرے منگل کو کہا کہ چین اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقی سے منسلک مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم اقدامات کرے گا۔ نئی دہلی میں قائم چین کے سفارت خانے نے اپنے ایک بیان میں بیجنگ کے خدشات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ دلائی لامہ گروپ کی چین مخالف علٰیحدگی پسند معاملات پر چین کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا احترام کرے اور دنیا کو غلط سگنلز بھیجنا بند کرے۔ امریکی وفد کے قائد میک کول نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ چین دلائی لامہ کے جانشین کے انتخاب پر اثرانداز نہ ہو۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جب کہ چین کا کہنا ہے کہ اسے دلائی لامہ کے جانشین کی منظوری کا حق حاصل ہے۔

تبتی روایت کے مطابق دلائی لامہ اپنی موت کے بعد دوبارہ جنم لیتا ہے۔ موجودہ اور 13ویں دلائی لامہ کا کہنا ہے کہ وہ 103سال تک زندہ رہیں گے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امکان یہ ہے کہ ان کا جانشین بھارتی سرزمین سے ملے گا۔ جلاوطن تبتیوں کو خدشہ ہے کہ چین تبت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کسی شخص کو جانشین نامزد کرنے کی کوشش کرے گا۔

سوال یہ ہے کہ امریکی عہدے دار کی نئی دہلی میں دلائی لامہ سے ملاقات پر چین کیوں برہم ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیجنگ جلاوطن انتظامیہ کو تسلیم نہیں کرتا۔ دلائی لامہ کے نمائندوں اور چینی حکومت کے درمیان باضابطہ بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر 2010 میں ختم ہو گئی تھی۔ تبتیوں کی جلاوطن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آزادی کا نہیں بلکہ چین کے اندر خودمختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جلاوطن حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جلاوطن انتظامیہ کسی علٰیحدگی پسند تحریک کی نمائندگی نہیں کرتی۔ دلائی لامہ 1959 میں چین سے فرار ہو کر بھارت چلے گئے تھے۔ ان کا قیام ہمالیہ کے علاقے محل نما دھرم شالہ میں ہے اور وہ تبت کے حوالے سے اپنے موقف کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے رہے ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان ہلکی پھلکی جنگ کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ امریکا مودی کو اس بات پر تیاری کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ چین سے ٹکرائے اور اس سلسلے میں 2020ء میں لداخ ارونچل پردیش کے ارد گرد کے علاقوں میں شدید ٹکراؤ اور جنگ کا سماں برقرار رہا ہے لیکن بھارت اپنے آپ کو چین سے بچاتا رہا۔ اس کے برعکس بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف جنگ کی تیاری کا اعلان کیا ہے۔ تیسری بار کامیابی کے بعد بھی مودی نے سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں مودی نے پھر اعلان کیا ہے وہ پاکستان پر حملے کے احکامات جاری کر چکا ہے۔ لیکن یہ بات شاید اس کے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان سے ٹکراؤ اس کے لیے بڑی لڑائی بھی بن سکتی ہے۔