اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب 90 کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ کم و بیش ایک چوتھائی ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے باوجود مسلمان اور مسلم ممالک دونوں ہی شدید پس ماندگی کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں اور بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں آباد مسلم اپنی انفرادی حیثیت میں تو کامیاب بھی ہیں اور جدید دور کے تقاضوں سے بہت حد تک ہم آہنگ بھی تاہم مسلم ممالک (چند ایک متمول عرب ممالک کے سوا) شدید پس ماندگی کے شکنجے میں ہیں۔ مسلم دنیا میں پس ماندگی کی بہت سی وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ناخواندگی اور جہالت ہے۔ پس ماندہ مسلم معاشرے صدیوں پرانی از کار رفتہ رسوم کے شکنجے میں ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشی پس ماندگی پیچھا نہیں چھوڑتی اور معاشرتی و نفسی الجھنیں بھی دامن گیر رہتی ہیں۔
مسلم دنیا کے بارے میں پیش گوئیوں کا بازار گرم رہتا ہے۔ قیاس کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں اور کہہ دیا جاتا ہے کہ مسلم دنیا میں فکر و نظر کے بدلتے ہوئے زاویے غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کریں گے۔
دل خراش حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کم و بیش پانچ صدیوں سے مجموعی طور پر انتہائی نوعیت کے انحطاط سے دوچار ہے۔ پوری دنیا پر محیط ہونے کے باوجود مسلمان نہ تو کچھ کر پارہے ہیں اور نہ اپنی بات ہی ڈھنگ سے بیان کر پارہے ہیں۔
جرمنی کی معروف ویب سائٹ دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام نے مسلم دنیا سے متعلق 11 حقائق کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ موجودہ مقام سے مسلمان کس طور آگے بڑھیں گے اور اُن کے لیے مزید پنپنے کی کس حد تک گنجائش ہے۔
پہلی حقیقت: اس وقت مسلمانوں کی مجموعی آبادی ایک ارب 90 کروڑ تک ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2030 تک دنیا بھر میں مجموعی طور پر 2 ارب 20 کروڑ مسلمان ہوں گے۔
دوسری حقیقت: اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو 2030 تک مسلمان عالمی آبادی (8 ارب 30 کروڑ) میں 26.4 فی صد ہوں گے۔ اس وقت عالمی آبادی (6 ارب 90 کروڑ) میں مسلمانوں کا حصہ 23.4 فی صد تک ہے۔ عالمی آبادی میں اِتنا بڑا حصہ ہونے کے باوجود سیاسی، سفارتی، معاشی اور اسٹرٹیجک معاملات میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اسٹرٹیجک معاملات کے بیش تر ماہرین کے لیے مسلم دنیا پر چھائی ہوئی بے دِلی، بے حِسی اور پژمردگی انتہائی حیرت انگیز ہے۔
تیسری حقیقت: دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار بڑھتی ہی رہی ہے۔ 1990 سے 2010 کے دوران مسلمانوں کی عالمی آبادی 2.2 فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھی ہے جبکہ ماہرین کا اندازہ تھا کہ 2010 سے 2030 کے دوران مسلمانوں کی عالمی آبادی میں اضافے کی رفتار 1.5 فی صد سالانہ ہوگی۔ بیش تر مسلم ممالک میں ضبطِ تولید کے سرکاری پروگرام ناکامی سے دوچار رہے ہیں۔
چوتھی حقیقت: ایشیا و بحرالکاہل، مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقا اور یورپ میں مسلم آبادی میں اضافے کی رفتار خاصی کم ہے جبکہ صحرائے صحارا کے زیریں علاقے (افریقا) میں مسلم آبادی میں اضافے کی رفتار عالمی شرح سے تھوڑی سی کم ہے۔
پانچویں حقیقت: مسلمانوں کی آبادی کا غالب حصہ (تقریباً 60 فی صد) ایشیا و بحرالکاہل میں آباد رہے گا جبکہ 20 فی صد مسلمان مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں آباد رہیں گے۔
چھٹی حقیقت: اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 2030 تک دنیا بھر میں ایسے ممالک 79 ہوں گے جن میں سے ہر ایک میں 10 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہوں گے۔ ان ممالک کے سیاسی و معاشی معاملات میں مسلمانوں کا عمل دخل بھی بڑھے گا۔ شمالی و جنوبی امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کی بڑھی ہوئی آبادی اُنہیں مقامی سیاست اور معاشی امکانات کے حوالے سے بھی مضبوط بنارہی ہے۔
ساتویں حقیقت: اس وقت آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا ہے جس میں تقریباً 24 کروڑ 20 لاکھ اہلِ ایمان آباد ہیں۔ انڈونیشیا میں مسلمان (24 کروڑ 20 لاکھ) ملک کی مجموعی آبادی کا 87 فی صد ہیں۔
آٹھویں حقیقت: اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو اس بات کا واضح امکان ہے کہ 2030 تک مسلم دنیا میں سُنی مسلک سے تعلق رکھنے والے اہلِ ایمان کی تعداد 87 تا 90 فی صد ہوگی۔ اِس دوران دنیا بھر میں اہلِ تشیع کی تعداد میں تھوڑی کمی واقع ہوگی۔
نویں حقیقت: بیش تر مسلمان عربی نہیں بولتے کہ یہ سب کی مادری زبان نہیں تاہم دنیا بھر میں مسلمان عمومی طور پر تھوڑی بہت عربی ضرور سیکھتے ہیں کیونکہ مذہبی تعلیمات کے حصول اور عبادات کے معاملات میں عربی کا جاننا لازم ہے۔ صلٰوۃ ادا کرنے کے لیے گزارے کی حد تک عربی سیکھنا ہی پڑتی ہے۔ بعض مسلم ممالک میں عربی اس خیال سے بھی سیکھی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے متمول عرب ممالک میں بہتر معاشی امکانات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
دسویں حقیقت: دنیا بھر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں عربی کا پانچواں نمبر ہے۔ مجموعی طور پر 40 کروڑ افراد عربی بولتے اور سمجھتے ہیں جن میں 20 کروڑ وہ ہیں جن کے لیے عربی مادری زبان ہے۔ عربی کو دنیا بھر میں پھیلانے کے حوالے سے کوششیں بھی جاری ہیں۔ کئی خطوں کے مسلمان برائے نام عربی بھی نہیں سمجھتے۔ اُنہیں عربی سمجھنے کے قابل بنانے پر بھی خاصی توجہ دی جارہی ہے۔
گیارہویں حقیقت: عربی اقوامِ متحدہ کی 6 سرکاری زبانوں میں شامل ہے اور یہ 27 ممالک کی سرکاری یا شریک سرکاری زبان ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں امریکا کے پیو ریسرچ سینٹر، لینگویج کنیکٹز فاؤنڈیشن اور ورلڈ پاپولیشن ریویو کی تحقیق اور ترتیب دیے ہوئے حقائق سے مدد لی گئی ہے۔)