ایک زمانے میں مثالی شہر کہلانے والے شہر کو مسلسل حکمرانوں ہی نے تباہ کیا اور آج بھی اس کام میں مصروف ہیں، پیپلز پارٹی کے مسلط شدہ میئر کراچی نے کے الیکٹرک کے بلوں میں میونسپل چارجز وصول کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے گویا سرکاری ٹیکس پرائیویٹ کمپنی جمع کرے گی، اس کے نتیجے میں کراچی والوں پر ایک اور بوجھ پڑے گا، کہنے کو یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ میونسپل یوٹیلٹی چارجز و ٹیکس K الیکٹرک جمع کرے گی، لیکن اس کے نتائج بہت خطرناک نکل سکتے ہیں۔ میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز وٹیکس (MUCT) کے پیش نظر بلدیہ عظمیٰ کراچی اور کے الیکٹرک کے درمیان بنیادی معاہدہ طے پاگیا ہے جبکہ مذکورہ ٹیکس کی عدالتی فیصلے کے مطابق وصولی سے متعلق سٹی کونسل میں قراداد پہلے ہی منظور کی جا چکی ہے انہوں نے منطق پیش کی ہے کہ اس ٹیکس کی مخالفت کرنے والے شہر کے دوست نہیں ہیں، حالانکہ ان کی پارٹی کراچی سے اپنی دوستی کا کوئی ثبوت نہیں پیش کرسکتی، مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ غریب یا کم آمدن والے گھریلو صارفین کو 100 یونٹ تک چھوٹ دی گئی ہے جبکہ 101 یونٹ سے 200 یونٹ تک 20روپے، 201 سے 300 یونٹ تک 40 روپے، 301 سے 400 یونٹ تک 100 روپے، 401 سے 500 یونٹ تک 125 روپے، 501 سے 600 یونٹ تک 150روپے، 601 سے 700 یونٹ تک 175 روپے اور 700 سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے صارفین پر 300 روپے یوٹیلیٹی کی مد میں واجب الادا ہونگے جبکہ کمرشل بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تمام کیٹیگریز پر 400 روپے لاگو کیے گئے ہیں اسی طرح صنعتی صارفین کی تمام کیٹیگریز پر بھی 400 روپے لاگو کیے گئے ہیں، میئر کراچی نے دعویٰ کیا کہ اس پر عملدرآمد سے بلدیہ عظمیٰ کراچی سالانہ چار ارب روپے کمانے کی پوزیشن میں ہوگی، اس آمدن کو شفاف طریقے سے شہر کی فلاح و بہبود اور ترقی کی مد میں خرچ کیا جائے گا، وہ یہ کام کیسے کریں گے اس کا جواب ان کے پاس اور پارٹی کی تاریخ میں کہیں نہیں ہے۔ اس پارٹی کی شفافیت تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے 2019 تا 2025 ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور کلک سے اربوں روپے کے قرضے لیے، وہ بتائے کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لیے گئے قرضوں کی رقم کہاں خرچ کی گئی؟، پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اٹھارہویں ترمیم کی آڑ میں خود تو اختیارات حاصل کرلیے لیکن وہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کرنا چاہتی، امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر نے اس حوالے سے واضح اور دوٹوک مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140-A کے تحت تمام تر اختیارات ٹائون و یوسیز کی سطح پر منتقل کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک نے کراچی کے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے، کراچی کے عوام مہنگی ترین بجلی کے الیکٹرک سے خریدنے پر مجبور اور وقت پر بل ادا کرنے کے باوجود بدترین لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اس کے باوجود مرمت کے نام پر پورا پورا دن بجلی بند کی جارہی ہے، اضافی بل بھیجے جانے پر شہری شدید ذہنی اور مالی اذیت کا شکار ہیں، شدید گرمی اور حبس میں کے الیکٹرک نے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا اور جن علاقوں کو استثنیٰ حاصل تھا وہاں بھی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے، جس سے شہری دہری اذیت میں مبتلا ہیں، کے الیکٹرک کے لائسنس کی مدت 20سال بڑھانے میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیوا یم تینوں جماعتیں برابر کی ذمہ دار ہیں انہی کی وجہ سے شہری کے الیکٹرک کے سے عذاب سے دوچار ہیں۔ اب اسی کو میونسپل چارجز کی وصولی کا اختیار دیا جارہا ہے، ذرا پی ٹی وی لائسنس فیس کا تو حساب لیا جائے کہ کے الیکٹرک نے وہ اس ادارے کو کتنا دیا، یہ جو اضافی رقم کے الیکٹرک کے بل میں لگ کر آئے گی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ بلدیہ عظمیٰ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجائے گی، کے الیکٹرک کا ریکارڈ تو سرکاری اداروں کی رقم ہڑپ کرنے کا ہے، وہ کیسے یہ ٹیکس جمع کرنے کی مجاز ہے۔ پھر مرتضیٰ وہاب شہر کی ترقی کا وعدہ کیسے پورا کریں گے، امیر جماعت اسلامی کراچی نے میونسپل ٹیکس کی وصولی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبضہ میئر نے جعلی طریقے سے کونسل میں میونسپل ٹیکس کی منظوری کروائی اور کہا تھا کہ ہمیں اس سے 4ارب روپے کا فائدہ ہوگا اور کبھی کہہ رہے ہیں کہ 2ارب روپے ملیں گے، قبضہ میئر صرف اور صرف کے الیکٹرک کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں، کے الیکٹرک کے بلوں میں میونسپل ٹیکس کی وصولی کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کراچی کیا کسی شہر کے ساتھ مخلص نہیں ہے، یہ حیدر آباد کے سول اسپتال کے لیے روبوٹک سرجری کے لیے 4روبوٹ منگوا رہے ہیں جس میں ایک کی قیمت ایک ارب سے زائد کی ہے، جبکہ پیپلز پارٹی نے سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولتیں تو فراہم نہیں کیں لیکن اربوں روپے روبوٹک سرجری کے نام پر خرچ کیے جارہے ہیں، پیپلز پارٹی نے عباسی شہید اسپتال، جناح اسپتال، کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے لیے کوئی اضافی گرانٹ نہیں رکھی۔ یہ کس طرح کے الیکٹرک کے ساتھ مل کر کراچی کو ترقی دے سکے گی، اہل کراچی تو اس ادارے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، میونسپل ٹیکس تو اہل کراچی کے لیے نیا بھتا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی نے 26 جون کو کے الیکٹرک اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ لوٹ مارکے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ یہ ٹیکس صرف بھتا ہی نہیں بلک شہریوں کے لیے نئی مشکلات لائے گا، شہری تو پہلے ہی بے تحاشا دبائو کا شکار ہے۔ بلوں میں اضافے سے دیگر ٹیکسوں میں بھی اضافہ ہوگا، ایسے میں لوگ عدالت کی طرف دیکھنے ہیں اور اب تک عدالتیں عوامی مفاد میں فیصلے دینے کے معاملے میں کوئی اچھا ریکارڈ نہیں رکھتے۔