آخری حصہ
پچھلے کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ زبردست معاشی ترقی کے باوجود دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بجٹ بھی خسارے کے بجٹ ہی ہوتے ہیں جن میں عوام کی بہبود کے سامان کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس مسئلے کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا ’’آزادی ملکیت‘‘ کا تصور ہے۔
آزادی ملکیت کے اس تصور کے تحت معاشرے میں موجود عظیم منافع بخش شعبے جیسے تیل وگیس کے ذخائر اور معدنی دولت جیسے سونا تانبا وغیرہ نجی ملکیت میں چلے جاتے ہیں۔ دوسرے آزادی ملکیت کے تصور کے تحت ریاست کوئی کاروبار نہیں کرسکتی کیونکہ ریاست اگر کسی شعبے میں کاروبار کرے گی تو اس میں نجی شعبہ حکومتی کمپنیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ آزادی ملکیت کے ان دو اصولوں کی وجہ سے معاشرے میں موجود عظیم قدرتی وسائل جیسا کہ بجلی، تیل، گیس اور معدنیات اور ان سے حاصل ہونے والا منافع چند سرمایہ داروں کے ہا تھوں میں چلا جاتا ہے۔
اسی طرح جن شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ بھاری منافع بھی ہوتا ہے مثلاً بھاری صنعتیں، ہوا بازی، ریلوے شپنگ، ٹیلی کمیونی کیشن وہاں ریاست کاروبار نہیں کرتی۔ یہ شعبے نجی کمپنیوں کی تحویل میں چلے جاتے ہیں اور انہیں تمام منافع جمع کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور ریاست اپنی آمدنی اور منافع کے بڑے بڑے ذرائع سے محروم ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2022 میں امریکا کی تیل اور گیس کی صنعت کے کل ریوینیو 332.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ 2022 میں امریکی کان کنی کی صنعت کی ویلیو ایڈیشن 457 ارب ڈالر تھی۔ ایرو اسپیس اور دفاعی صنعت نے 2022 میں 741 بلین ڈالر کے ریوینیو اور آپریٹنگ منافع میں 67 بلین ڈالرظاہر کیے۔ 2022 میں امریکی فارما صنعت کاریونیو 364 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا فیڈرل کمیونی کیشن کمیشن (ایف سی سی) نے امریکی ٹیلی کمیونی کیشن مارکیٹ کی قیمت 133 ارب ڈالر رکھی ہے حالانکہ دوسرے ذرائع کے مطابق اس کی قیمت 332 ارب ڈالر تک ہے۔ 31مارچ 2024 کو ختم ہونے والے بارہ مہینوں کے لیے امریکن ائر لائنز گروپ کی آمدنی B53.169$ تھی۔
اب آئیے پاکستان کی طرف۔ پاکستان میں 2024 کے مالیاتی سال کے پہلے 9ماہ میں آئل اینڈ گیس سیکٹر نے 350 ارب روپے کا خالص منافع کمایا ہے۔ اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ اگر حکومت تیل گیس معدنیات اور بھاری صنعتوں میں کردار ادانہیں کرے گی تو اس کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے جب کہ وہ اپنی آمدنی کے عظیم شعبوں سے خود کو محروم کرتی چلی جارہی ہے۔ لہٰذا لوگوں کی آمدن پر ٹیکس لگایا جاتا ہے جیساکہ انکم ٹیکس اور اس کے ساتھ ساتھ کنزمشن پر ٹیکس لگایا جاتا ہے جیسا کہ سیلز ٹیکس وغیرہ۔ اس کے علاوہ بھی ڈھیروں ٹیکس لگائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ریاستوں کی ضرورت کے مطابق وسائل جمع نہیں ہوتے۔ جن شعبوں میں سب سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے جیسا کہ بجلی، تیل وگیس، معدنیات، بھاری صنعتیں، ہوا بازی، ٹیلی کمیونی کیشن وغیرہ جمہوری نظام کی فیوض وبرکات سے ٹیکس کا نظام اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ بڑے بڑے سر مایہ داروں پر کم سے کم ٹیکس لگتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ معاشرے کے جس طبقے کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے وہ کم ٹیکس دیتا ہے اور جس طبقے کے پاس کم دولت ہے اس سے ظالمانہ حدتک ٹیکس لیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود ریاست کی ضرورت کے مطابق وسائل جمع نہیں ہو رہے۔
حاصل کلام یہ کہ مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام کا آزادی ملکیت کا تصور ہے جس کے تحت عظیم منافع بخش ادارے جیسے تیل، گیس اور عظیم قدرتی وسائل نجی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور ریاست اپنی آمدنی کے ایک عظیم حصے سے محروم ہوکر تہی دست ہوتی چلی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے برخلاف اسلام نے ملکیت کا ایک منفرد تصور دیا ہے۔ اسلام بجلی، تیل، گیس اور عظیم معدنی وسائل کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے یعنی تمام عوام ان وسائل کے مالک ہیں اور ریاست عوام کے وکیل کی حیثیت سے ان وسائل کا انتظام چلاتی ہے اور ان وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی اور منافع کو براہ راست عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتی ہے۔ یوں بجلی، گیس، تیل اور عظیم معدنی وسائل سے ریاست کو اربوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے جنہیں وہ ملک وقوم کی ضروریات کے مطابق خرچ کرتی ہے۔
اسی طرح اسلام ریاست کو کسی بھی شعبے میںکاروبار کرنے سے منع نہیں کرتا۔ اسلام نے جس طرح کے کمپنی کے ڈھانچے کی اجازت دی ہے اسی طرح ان شعبوں میں جہاں بھاری سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے عملاً صرف سرکاری کمپنیاں ہی کاروبار کرسکتی ہیں۔ اس طرح ریاست ریلوے، ہیوی انڈسٹری، ہوابازی، شپنگ، ٹیلی کمیونی کیشن وغیرہ جیسے شعبوں سے اربوں ڈالر کماتی ہے اس کے علاوہ بھی اسلام کے کئی احکامات ہیں جن پر عمل کرنے کی صورت میں ریاست کے پاس اتنے وسائل جمع ہوجاتے ہیں کہ وہ عمومی طور پر خسارے میں نہیں جاتی اور ا سے مستقل طور پر قرضوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔
قرآن مجید میں اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور اگر وہ قائم رکھتے توریت اور انجیل اور جو کچھ ان کی طرف ان کے ربّ کی طرف سے اتراتو انہیں رزق ملتا اوپر سے اور ان کے پائوں کے نیچے سے‘‘۔ (المائدہ؛ 5:66)
اگر آج ہم سرمایہ دارانہ سودی نظام کو چھوڑ کر قرآن کے احکام کو نافذ کریں تو کیا ہم پر یہ بشارت پوری نہیں ہوگی؟؟