خسارے کا بجٹ: ان زنجیروں سے نجات کیسے ممکن ہے؟

501

پہلا حصہ
فہمیدہ ریاض کے کلام سے آغازکرتے ہیں:
جس ہاتھ میں خنجر ہے
اس ہاتھ کی کمزوری
ہر وار سے ثابت ہے
برس ہا برس بیت گئے، ان ہاتھوں میں دم خم نہیں رہا جو ہاتھ بجٹ پیش کیا کرتے ہیں کیونکہ ان ہاتھوں کے جامے میں اب آئی ایم ایف کے ہاتھ ہیں۔ ایک لطیفہ اس صورتحال کا بہتر اظہار ہے
قومی بجٹ پر ہم سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔۔۔ پی پی پی کا شکوہ
ہم سے بھی نہیں ہوئی۔۔۔ ن لیگ کا جواب
پاکستان کے بجٹ کے ساتھ آئی ایم ایف کا بھوت اس طرح چمٹا ہوا ہے کہ پاکستان کے حکمران ایسا بجٹ پیش کر ہی نہیں سکتے جو حکومت پاکستان کی منشا اور مرضی کے مطابق ہو۔ وہ رعایت بھی ختم ہوگئی جب آئی ایم ایف کے تیار کردہ بجٹ پر پاکستان کے اکنامک مینیجرز اوپر اوپر اپنی مرضی کا ہرا دھنیا پودینہ چھڑک کر اسے میڈ ان پاکستان ڈش کی صورت پیش کر دیا کرتے تھے۔ اس کشمکش میں مصیبت عوام کی ہے جو:
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہیں
نہ کسی کے دل کا قرار ہیں
کم سے کم تر ہوتی معاشی گروتھ، روز افزوں بڑھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی قرضے، غربت، مہنگائی، غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی، بے محابا سیاسی تنائو، بیلنس آف پیمنٹ کی بدتر صورتحال جہاں اتنی کمزوریاں ہوں وہاں کوئی ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتا جب کہ ہم آٹھ ارب ڈالر کے قرض کے اگلے پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کو ماما بھی بنانا چاہتے ہیں تو پھر اس کے ماما ازم کا شکار تو ہونا پڑے گا کہ آخر کو وہ بھی یہودی ساہوکار ہیں۔ بات تو ان ہی کی چلے گی آپ چیخیں یا چلائیں۔
میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے حد ہے
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے حد ہے
عمر گزر گئی حکومتی معاشی ماہرین کی یہ حتمی رائے سنتے ہوئے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی اشد ضرورت ہے۔ جب ضرورت اتنی شدید ہو تو پھر دینے والے ہاتھ کھال اتار کر بھی دم لے لیں تو غنیمت ہے۔ جب ہم اس پوزیشن میں ہوں کہ کسی بھی مرحلے میں آئی ایم ایف کو ’’نہیں‘‘ نہ کہہ سکیں، غیرت کے بغیر رہ سکیں لیکن آئی ایم ایف کے بغیر نہ رہ سکیں تو پھر وہی ہوگا جو آئی ایم ایف کی مرضی ہوگی۔ بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط پر نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی جانب سے بنا کردیا جائے گا۔ انور مسعود نے آئی ایم ایف کے بجٹ اور پروگراموں کی کیا خوب منظر کشی کی ہے:
بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
انوکھے انوکھے خسارے ترے
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
گرانی کی سوغات حاصل مرا
محاصل ترے گوشوارے ترے
مشیروں کا جمگھٹ سلامت رہے
بہت کام جس نے سنوارے ترے
مری سادہ لوحی سمجھتی نہیں
حسابی کتابی اشارے ترے
کئی اصطلاحوں میں گوندھے ہوئے
کنائے ترے استعارے ترے
تو اربوں کی کھربوں کی باتیں کرے
عدد کون اتنے شمارے ترے
تجھے کچھ غریبوں کی پروا نہیں
وڈیرے ہیں پیارے دلارے ترے
ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا
یونہی چل رہے ہیں ادارے ترے
پاکستان کے اگلے مالی سال کے اہداف کیا ہوں گے؟ یہ جاننے کے لیے پاکستان کے حکمرانوں کے ستاروں پر کمندیں ڈالتے دعووں کے بجائے آئی ایم ایف کے پاکستان کے باب میںمعاشی اشاریوں پر نظر ڈالیں، حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ حکمران جو بھی کہیں پاکستان کی اگلے مالی سال کی جی ڈی پی 3.5 فی صد سے آگے نہیں بڑھے گی اور مہنگائی کی شرح 12.7 فی صد تک بڑھے گی کیونکہ یہی آئی ایم ایف نے ہمارے بارے میں فیصلہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پیش کردہ بجٹ میں عام آدمی کے لیے مالی مشکلات کے سوا کچھ نہیں۔ یاد رہے آئی ایم ایف ہاتھ میں گن تھام کر زور زبردستی نہیں کررہا اسے ہمارے حکمرانوں نے پاکستان اور اس کے عوام پر مسلط کیا ہے۔