ایٹمی پروگرام منجمد ہونے کے آثار؟

413

یوں لگتا ہے کہ ڈھائی برس قبل ملک میں ایک چہرے اور ایک نظام کی ہی نہیں خطے کی جیو پولیٹکس اور پاکستان کی راہ ِ عمل اور لائحہ عمل کی تبدیلی بھی ہوئی تھی۔ جسے Paradiam shift یعنی کایا پلٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ بنیادی سوچ کی تبدیلی اور وہ سوچ یہ ہے کہ ’’اب ہم چھوٹے ہیں‘‘ ہمارے قدم بھی چھوٹے رہیں گے اور ہمارے خواب بھی۔ وقت اب اس بات پر مُہرِتصدیق ثبت کرتا جا رہا ہے۔ اس کا ایک تازہ ثبوت سویڈن کے ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) کی سالانہ رپورٹ ہے جس میں یوں تو دنیا بھر میں ہونے والی نیوکلیئر سرگرمیوں کا جائزہ پیش کیا گیا مگر اس کا اصل ماحصل پاکستان اور بھارت کے ایٹمی وار ہیڈز اور ہتھیاروں کی تعداد میں سال بھر میں بدل جانے والا تناسب ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں اور وارہیڈز کا نوے فی صد ذخیرہ روس اور امریکا کے پاس ہے۔ ایشیا میں چین بھارت اور پاکستان تین ایٹمی طاقتوں کے پاس ایٹمی وار ہیڈز کی بالترتیب تعداد پانچ سو، ایک سو بہتر اور ایک سو ستر ہے۔ یہ سال 2024 کی رپورٹ ہے جبکہ 2023 کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے ایٹمی وارہیڈز کی تعداد ایک سو چونسٹھ جبکہ پاکستان کے وار ہیڈز کی تعداد ایک سو ستر تھی۔ اس ایک سال میں پاکستان کے وار ہیڈز کی تعداد تو رک سی گئی اور اس ایک سال میں بھارت نے اپنے وار ہیڈز کی تعداد ایک سو چونسٹھ سے بڑھا کر ایک سو بہتر کر لی۔ اس طرح بھارت نے ایٹمی وار ہیڈز کے معاملے میں پاکستان کی برتری کو اپنے ہتھیاروں کی تعداد میں نمایاں بڑھوتری سے بدل کر رکھ دیا۔
سیپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے جبکہ بھارت کی توجہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تعیناتی اور تیاری پر مرکوز ہوتی ہے ایسے ہتھیار جو چین کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ چند برس پہلے پاکستان کے دفاعی ماہرین بہت فخر سے یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے ایٹمی وار ہیڈز کی تعداد بھارت سے زیادہ ہے اور سیپری جیسے عالمی ادارے بھی اس برتری کا ذکر نمایاں انداز میں کیا کرتے تھے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ پاکستان نے ایک سال میں اپنے وار ہیڈز کی تعداد کو منجمد رکھا اور بھارت نے اس تعداد کو اس معمولی حد تک بڑھا دیا کہ اس میدان میں فقط پاکستان کی برتری ختم ہو کر رہ جائے۔ پاکستان کے بھارت سے امتیازات چھیننے کا ایک عمل بہت غیر محسوس انداز میں جاری ہے۔ کرکٹ کا میدان ہو یا ایٹمی وار ہیڈز ہر جگہ بھارت کی برتری کو مصنوعی انداز سے ایک راہ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ بسا اوقات تو یہ عمل اس قدر مصنوعی اور فیک لگتا ہے کہ ایک رضاکارانہ قسم کی پسپائی اور پس قدمی کا گمان ہونے لگتا ہے۔ پروین شاکر نے ایسے ہی مواقع کے لیے کہا تھا۔
دشمن کو ہارنے سے بچانا عجیب تھا
ترکِ مدافعت کا بہانہ عجیب تھا
ایک دوسرے کو جان نہ پائے تمام عمر
ہم ہی عجیب تھے کہ زمانہ عجیب تھا
ممکن ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اور وار ہیڈز اپنی جدت، تیر بہدف اور تباہ کن ہونے میں بھارت سے آگے ہوں اور عملی طور پر بھارت کے دو اضافی وار ہیڈز بنانے سے پاکستان کے ذخیرے پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو مگر جنوبی ایشیا کے دو دیرینہ اور روایتی حریفوں کے درمیان ایک ہتھیاروں کی تعداد کا ایک تناسب اور توازن بدل دینا مقصود ہو۔ اس کا تعلق اسٹرٹیجی اور تزویراتی برتری سے نہیں بلکہ یہ خالصتاً نظریاتی معاملہ ہے۔ جس کا مقصد آپ کو یہ باور کرانا ہے آپ آبادی رقبے اور معیشت کے لحاظ سے چھوٹے ہیں تو آپ کو ہر میدان میں اپنا پائوں ایک قدم پیچھے ہی رکھنا ہوگا۔ اسی لیے آپ کے امتیازات ایک ایک کرکے چھن رہے ہیں یا آپ خود اختیار کردہ ایک سرینڈر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بھارت خود کو چین کا ہم پلہ اور حریف سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان اگر اس کا بغل بچہ بھی نہ بنے تو چھوٹا حریف بن کر رہے اس کی ہمسری اور برابری یا ایک قدم آگے نکلنے کی سوچ ترک کر دے۔ پاکستانی حکمران طبقات اپنی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے بھارت کو بیٹھے بٹھائے ایک نمایاں امتیاز دے دیا ہے مگر ذہانت، جرأت اور مسابقت پر کسی کا اجارہ نہیں ہوتا نہ یہ معیشت کی بدحالی یا خوش حالی کا کھیل ہوتا ہے۔ معیشت برباد ہوگئی تو پاکستانی زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنا وجود تو منوا سکتے ہیں؟۔ کرکٹ کا معیشت کی بربادی سے کیا تعلق ہے؟ مگر آپ یہاں بھی رضاکارانہ سرینڈر کرتے نظر آتے ہیں۔ تین وارہیڈز مزید بنا کر آپ اپنا متیاز بچا سکتے تھے مگر جو ہوا اس کے برعکس ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے جب اسحٰق ڈار نگران وزیر خزانہ تھے تو ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کی شرط عائد کر رہا ہے۔ یہ وہی سال تھا جب پاکستان نے مزید ایٹمی وار ہیڈز تیار کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا اور بھارت نے آٹھ نئے وارہیڈز تیار کرکے پاکستان کی برتری ختم کر دی۔ جس طرح پاکستان کی رگِ جاں آئی ایم ایف کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اس سے قطعی بعید نہیں کہ اس کایا پلٹ کا تعلق آئی ایم ایف کے دبائو اور شرائط سے ہے۔ مطالبات کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور پاکستان اس پر فدویانہ انداز سے عمل درآمد کرتا رہا تو نجانے یہ سفر کہاں جا کر ختم ہو؟۔