کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر نوجوان سرور کا قتل شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز کی ایک اور دلخراش مثال ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت، پولیس اور رینجرز سب اس مسئلے پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ جس کا مقصد شہریوں کی حفاظت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہونا چاہیے، ضائع ہورہا ہے۔ شہر میں رواں سال ڈکیتی مزاحمت پر جاں بحق افراد کی تعداد 78 تک پہنچ چکی ہے، جو حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت جمعہ کو منعقدہ اجلاس میں سیف سٹی پروجیکٹ اور اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف آپریشنز پر بات ہوئی۔ تاہم یہ اجلاس اور وزیراعلیٰ کے اقدامات صرف نمائشی ثابت ہورہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کچے کے علاقوں سے آنے والے ڈاکو ریاست کی سرپرستی میں کراچی کے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ ملزمان شہر بھر میں درجنوں وارداتوں میں ملوث تھے، لیکن ان کے خلاف کارروائیاں ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔ کراچی سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت سی سی ٹی وی کیمروں کی پہلی کھیپ چین سے جون 2024ء کے آخری ہفتے میں پہنچنے والی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کیمرے واقعی اسٹریٹ کرائمز کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے؟ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اسٹریٹ کرمنلز اور ڈرگ مافیا کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ دعوے حقیقت میں کم ہی پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کا مسئلہ شدید ہوتا جا رہا ہے اور حکومت، پولیس اور رینجرز کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع ہورہا ہے اور شہر کی سڑکوں پر لوگ ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ حکومت کو فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے اور عوامی پیسے کا درست استعمال یقینی بنایا جا سکے۔