پارلیمانی جمہوری نظام میں نگراں حکومت کا اصل مقصد منصفانہ غیر جانبدارانہ صاف اور شفاف انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی ملکی معاملات کی عارضی دیکھ بھال اور تسلسل برقرار رکھنا بھی ہوتا ہے مگر نگراں حکومت کو اس دوران کوئی طویل المیعاد معاہدے یا فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ایسے معاملات میں عارضی توسیع کر کے اسے آنے والی حکومت کو منتقل کر دیے جاتے ہیں مگر گزشتہ نگراں حکومت نے نہ تو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخاب کرائے بلکہ ایسے فیصلے بھی کر ڈالے جن کا اختیار نہ تھا اس میں سب سے خطرناک عمل کے الیکٹرک کو مزید 20 سال کے لیے اہل کراچی پر مسلط کرنا تھا جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کے الیکٹرک کو چند ماہ کی توسیع کر کے مستقل فیصلہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا جاتا نگراں حکومت کا یہ عمل یقینا غیر قانونی اور غیر آئینی اور قابل گرفت ہے جس کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے مگر یہ کام کرے گا کون؟ کراچی پر حکمرانی کے دعویدار تو بہت ہیں مگر کراچی کی داد رسی کوئی نہیں کرتا کے الیکٹرک کے خلاف عملی جدوجہد کا آغاز تو حافظ نعیم الرحمن نے کیا تھا جب وہ امیر جماعت اسلامی کراچی تھے مگر اب امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ذمے داری انہی کے کاندھوں پر ہے پھر بھی اہل کراچی کی نظریں انہی کی منتظر ہیں۔
مزید 20 سال کے اختیارات حاصل کرنے کے بعد کے الیکٹرک کے رویے میں نرمی آنے کے بجائے اکڑ آ گئی ہے اور وہ ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ہم لوڈشیڈنگ ختم نہیں کر سکتے اور اوور بلنگ کے لیے ہمارے کسٹمر سینٹر موجود ہیں۔ ایسے ہی ایک سینٹر پر ہمارا بھی جانے کا اتفاق ہوا اس کا احوال پیش خدمت تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن ہمارے ایک پرانے دوست ہاتھ میں بجلی کا بل تھامے ہم سے آملے پریشانی ان کے چہرے سے ٹپک رہی تھی آتے ہی پھٹ پڑے اور بولے یار یہ بجلی والے بھی عجیب قسم کے لوگ ہیں ہمارا بل جو پہلے مستقل ڈھائی اور تین ہزار کا آتا تھا یہ دیکھو اب ساڑھے نو ہزار کا بھیج دیا ہے اس پر پریشانی یہ کیا کہتے ہیں مزید چھے ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہے گا مزید چھے ماہ تک جاری رہنے والی بات نے ہمیں ان کے ساتھ کسٹمر سینٹر لاکھڑا کیا دفتر کے باہر ہی ایک جم غفیر تھا جو کے الیکٹرک کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تھا ہمیں بتایا گیا کہ گیٹ پر کھڑے سیکورٹی گارڈ سے نمبر حاصل کر لیں یہ نمبر کیا تھا انگلی کے پورے کے برابر کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا جس پر ایک نمبر درج تھا تقریباً دو گھنٹے ہم باہر کے گرم ماحول سے شرابور ہوتے رہے پھر بائونڈری وال کے اندر دھوپ میں رکھی کرسیوں پر بٹھا دیا گیا تقریباً پون گھنٹے بیٹھنے کے بعد اصلی جگہ یعنی کاؤنٹر روم میں جانے کی اجازت ملی، ماحول ٹھنڈا پا کر کچھ سکون ملا یہاں پر ہمیں ایک اور پرچی ملی جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس پر ہماری آمد کا وقت وہ درج تھا جس وقت یہ پرچی کمپیوٹر سے نکالی گئی یعنی ہمارا وقت شروع ہوتا ہے اب۔ پیچھے جو ڈھائی تین گھنٹہ گزارا ہے اس کا کے الیکٹرک سے کوئی تعلق نہیں تقریباً 20/ 25 منٹ کے بعد کاؤنٹر پر ہمارا نمبر ظاہر ہوا تو ہمارے دوست نے جا کر اپنا مدعا بیان کیا جواب ملا آپ پہلے 200 یونٹ سے کم استعمال کر رہے تھے اس لیے آپ کو رعایت دی جا رہی تھی اب آپ کے یونٹ 200 سے بڑھ گئے ہیں لہٰذا یہ رعایت ختم کی جا رہی ہے وہ آئندہ چھے ماہ تک آپ یہ رعایت نہیں لے سکتے۔ چھے ماہ بعد آپ کو یہ رعایت اس شرط پہ مل سکتی ہے کہ آپ مسلسل چھے ماہ تک 200 سے کم یونٹ استعمال کریں گے۔
اب ہم آگے بڑھے اور اپنا تعارف کرانے کے بعد عرض کیا کہ یہ بات آپ لکھ کر دے سکتے ہیں تو انہوں نے برابر والے کمرے میں جانے کا مشورہ دیا ہم دستک دے کر اندر داخل ہوئے ایک خاتون کمپیوٹرکے سامنے لوگوں کے مسائل سن رہی تھیں ہم نے اپنا تعارف کرایا تو خاتون نے عزت کے ساتھ ہمیں تشریف رکھنے کو کہا ہم نے اپنا مدعا بیان کیا تو جواب میں انہوں نے ہمیں ایک پرنٹ نکال کر دیا جس کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ 200 یونٹ تک استعمال کرنے پر آپ پروٹیکٹڈ کہلائیں گے اور جیسے ہی آپ نے لائن کراس کی ان پروٹیکٹڈ (unprotected) بن جائیں گے اور یہ سلسلہ چھے مہینہ تک جاری رہے گا چھے ماہ بعد آپ دوبارہ سے پروٹیکٹڈ بن سکتے ہیں اگر آپ نے چھے ماہ تک مسلسل 200 یونٹ ہی استعمال کیے اور اگر آپ نے ایک بار بھی بارڈر کراس کیا تو پھر سے گنتی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
خاتون نے جو پرنٹ ہمیں دیا وہ نیپرا سے تصدیق شدہ تھا چلیے صاحب قصہ تمام ہوا ایک ماہ کی سزاچھے ماہ تک اور اس میں بھی توسیع کی گنجائش کیونکہ یہ سرکاری دستاویز تھی چنانچہ اسے ہم بغل میں دبائے دفتر سے باہر نکل آئے باہر نکلے تو دیکھا ایک تھیلے پر کیلے والے کا ٹکراؤ کے الیکٹرک کے ایک آفیسر سے تھا جس نے کیلے والے سے پوچھ لیا کہ کیلے کیسے دیے بس آفیسر کا یہ پوچھنا تھا کہ کیلے والا پھٹ پڑا اور بولا کس کے لیے لیں گے؟ آفیسر نے حیرانگی سے پوچھا کیا مطلب کیلے والا بولا مطلب یہ کہ غریب اور مسکین بچوں کے لیے 50 روپے درجن اور آپ کے بچوں کے لیے 100 روپے درجن۔ گھر والوں کے لیے 150 روپے درجن، آپ کے آفس والوں کے لیے 300 روپے درجن۔ آفیسر نے غصے میں کہا کیلے تو سارے ایک ہی جیسے ہیں پھر یہ الگ الگ ریٹ کیوں؟ صاحب جی آپ بھی تو ایک ہی کھمبے سے بجلی دیتے ہیں پھر الگ الگ ریٹ کیوں؟ یہ سنتے ہی وہ صاحب جانے کے لیے پلٹے تو کیلے والے نے آواز لگائی او صاحب یہ ابھی کے ریٹ ہیں شام پانچ سے آٹھ بجے کے دوران یہ ریٹ ڈبل ہو جائیں گے کہ وہ ہمارا دھندے (پیک آورز) کا ٹائم ہے۔
ہم تو اس کیلے والے کو ان پڑھ سمجھ رہے تھے بعد میں پتا چلا کہ تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہے دراصل بجلی کے بھاری بلو کی وجہ سے اسے کرائے کے مکان سے بھی بے دخل ہونا پڑا اس لیے کیلے بیچ رہا تھا بات تو اس نے سچی کہی کہ بجلی تو ایک ہی کھمبے سے آتی ہے تو پھر الگ الگ ریٹ کیوں؟ یہ سب کرشمہ سلیب سسٹم کا ہے جس کو نیپرا کی آشیرواد حاصل ہے۔
گیس والوں کا تو بابا آدم ہی نرالا ہے ان کا سلیب سسٹم ہی ایک جگہ نہیں ٹکتا کبھی پہلا سلیب 25 تک اور دوسرا 25 سے60 ہوتا ہے، تیسرا 60 سے 100 بن جاتا ہے، کبھی پہلا سلیب60 تک اور دوسرا 60 سے 100 اور تیسرا 100 سے 150 ہوجاتا ہے۔ ماضی میں یہ سلیب 50 تک پھر 50 سے 100 اور 100 سے 150 ہوتا تھا مگر اب حسب ضرورت آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے۔ سلیب سسٹم دراصل عوام کو نچوڑنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔ سوال وہی کھمبے والا ہے جب بجلی کی تیاری اور اس کی ترسیل ایک ہی ہے تو ریٹ تبدیل کیوں ہوتے ہیں اس کا کوئی جواز نہیں صرف منافع کمانا مقصود ہے تو ہم بھی ایک مخلصانہ مشورہ دیتے چلیں۔ ہمارا ملک اس وقت اربوں کھربوں کا مقروض ہے اور اگر ہمارا یہ مشورہ قبول کر لیا جائے تو ہمارا ملک ایک سال کے اندر اندر قرض سے نجات حاصل کر سکتا ہے بس کرنا یہ ہے پٹرول، ڈیزل کی 15 روزہ قیمتیں متعین کرنے کے بجائے یہ اختیار اوگرا سے لے کر نیپرا کو دے دیا جائے تو وہ یقینا یہاں بھی سلیب سسٹم نافذ کر دے گا جو کچھ یوں ہو سکتا ہے تین لیٹر پٹرول استعمال کرنے والے حضرات پروٹیکٹڈ (protected) کہلائیں گے اگر تین لیٹر سے ایک پوائنٹ بھی زیادہ لیتے ہیں تو ان پروٹیکٹڈ (unprotected) بن جائیں گے اور پھر پورے ایک ماہ تک اسٹینڈرڈ ریٹ پر حاصل کریں گے جو کچھ یوں ہوں گے پانچ لیٹر تک 300 روپے چھے لیٹر سے 10 لیٹر تک 500 روپے 11 لیٹر سے 15 لیٹر تک 800 روپے اور 16 سے 20 لیٹر1000 روپے اس عمل سے ایک تو حکومت کو ہر 15 دن بعد قیمتوں کے تعین سے نجات مل جائے گی دوسری طرف عوام بھی پٹرول کم استعمال کریں گے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ڈھیر ساری رقم با آسانی دستیاب ہوگی یہ اور بات ہے کہ عوام کو نچوڑنے کے بعد دھوپ میں سوکھنے کے لیے بھی ڈال دیا جائے گا۔