خسارے کا بجٹ: ان زنجیروں سے نجات کیسے ممکن ہے؟

365

(دوسرا حصہ)

جون ایلیا کا شعر ہے:

ایک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں

بجٹ پیش کرنا ایسا ہی ہنر ہے اور اگر بجٹ بھی وہ ہو جس میں ٹیکس تو یورپ کے لحاظ سے لگائے جارہے ہوں لیکن سہولتیں یوگنڈا کے حساب سے دی جارہی ہوں تو بات دل سے اُترنے سے آگے بڑھ کر گالم گلوچ اور بددعائوں تک جا پہنچتی ہے۔ ایک ایسا بجٹ جس میں ٹیکسوں میں اضافے کا مطالبہ ہو وہ بھی ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی صورت میں جو زیادہ تر غریب عوام کو پیستا ہو، جس میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہو جس کا مطلب مہنگائی ہی مہنگائی ہو، بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافہ ہو وہاں گالیاں سکھانی نہیں پڑتیں۔ ازخود زبان پر آجاتی ہیں۔ جس نے ساری زندگی گالی نہیں دی ہو اسے آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ دکھا دیجیے وہ بھی گالی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔

حکومتی ماہرین بجٹ اور اس کے زیر اثر مہنگائی اور بے روزگاری کو درد دل کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے یہ قسمت کا لکھا ہو۔ ’’سب کچھ درست‘‘ اور ’’بروقت‘‘ ثابت کرنے کے لیے ایسے پروگرام اور ٹاک شوز لانچ کیے جاتے ہیں جن میں دوسری طرف سب گونگے اور بہرے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہر دانشور سیاست دان اور میزبان یہ ثابت کرنے میں لگا ہوتا ہے کہ ’’قوموں نے کیا ہے اپنے بخت خفتہ کوبیداراس سے‘‘۔

پاکستان کا ہر بجٹ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے جسے پورا کرنے کے آئی ایم ایف ٹیکس نیٹ ٹیکسوں کی شرح بجلی پٹرول اور گیس کی قیمتیں بڑھانے پر اصرار کرتا ہے لیکن یہ بجٹ خسارہ کبھی پورا نہیں ہوتا اور آئندہ برس مزید خسارے کے بجٹ کی صورت اختیار کر لیتا ہے جب کہ اسی دوران آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی سود خور یہاں سے اربوں ڈالر لوٹ کر اپنی تجوریوں میں بھر لیتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی پرائیوٹائزیشن مہنگائی میں اضافے بیروزگاری اور دیگر عوام دشمن پا لیسیوں کو خدائی اصولوں اور دوام حیات کے طور پر اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے ان کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے تماشے کو بھی مرکزی خیال ازلی اور ابدی حقیقت بناکر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا میں جن المیوں کو جنم دے رہا ہے اور اس کے خلاف جس طرح عوام میں شدید غصہ بڑھتا جارہا ہے اسے نفاذ کی نہیں تدفین کی ضرورت ہے۔ بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری، اسٹاک ایکس چینج کی سٹے بازی اور سرمایہ دارطبقے کی لوٹ کھسوٹ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے انسانی عظمت کے راستے یہیں سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ اس قدر طے شدہ ہیں کہ ان پر کسی بحث، اختلاف اور شک کی گنجائش نہیں۔

مدتیں گزر گئیں ہر سال ہمارا بجٹ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے۔ خسارے کا بجٹ پیش کرتے ہوئے نوید سنائی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے، ٹیکسوں کی شرح میں اضافے، بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے نتیجے میں ہم خسارے کے بجٹ سے نجات حاصل کرلیں گے لیکن نتیجہ خاک چاٹنے کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا واقعی ٹیکس بڑھانے سے بجٹ خسارہ ختم ہوجاتا ہے؟ کیا واقعی قرض لینے سے بجٹ خسارہ ختم ہوجاتا ہے؟ ہم تو خیر گوناگوں زہر ناک معاشی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن کی بنا پر ہمارے بجٹ کا خسارے کا بجٹ ہونے کا جواز نکل سکتا ہے لیکن جو ممالک ان مسائل کا شکار نہیں ان ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کا بجٹ خسارے کا بجٹ کیوں ہوتا ہے؟

وفاقی حکومت کے پیش کردہ بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ 18ہزار 877 ارب روپے ہے (پچھلے سال 14ہزار 480 ارب روپے تھا)۔ آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ٹارگٹ 12ہزار 970 ارب روپے رکھا گیا ہے (پچھلے سال 9ہزار 415 ارب روپے تھا یعنی موجودہ سال میں 3ہزار 555 ارب روپے، تقریباً 38فی صد زائد ٹیکس جمع کیا جائے گا) اس کے باوجود بجٹ خسارہ 7ہزار 283 ارب روپے کا ہے۔ اس طرح بجٹ اخراجات کے لیے تقریباً 61فی صد وسائل دستیاب ہوں گے۔

31دسمبر 2023 کو پاکستان کا کل سرکاری قرضہ 67ہزار 300 ارب روپے ہے (239 ارب ڈالر)۔ اس طرح پاکستان کا کل قرض اور جی ڈی پی کی شرح74.8فی صد ہے۔ تقریباً 75فی صد۔ بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ 9ہزار 775 ارب روپے قرض کی اصل رقم اور اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ یعنی سودکی ادائیگی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

ہماری معاشی بدحالی کی اصل وجہ یہ بیان کی جاتی ہے ہمارے اللّے تللّے اور اخراجات زیادہ جبکہ آمدنی انتہائی کم ہے لہٰذا یا تو ہم اپنے اخراجات میں زبردست پیمانے پر کمی لائیں یا اپنی آمدنی میں زبردست اضافہ کریں۔ اس حل پر پوری طرح عمل نہیں کیا جاتا۔ حکومتیں آمدنی بڑھانے پر تو بہت زور دیتی ہے لیکن اخراجات میں کمی پر زیادہ توجہ نہیں دیتی۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے آئی ایم ایف معیشت کے ہر شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر زور دیتی ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو بڑھانے پر زور دیتی ہے۔

اس وقت پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح تقریباً 10فی صد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر معیشت کا حجم 100 روپے ہے تو حکومت کو اس میں 10روپے ٹیکس کے ملتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پانچ سال کے اندر اندر 15فی صد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا ہدف مقررکیا ہے۔ یہ پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال کی تصویر ہے۔ اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ایسے حالات صرف پاکستان کے ہیں؟

سب سے پہلے ہم اپنے خطے کے ملک بنگلا دیش کی صورتحال جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس کی ترقی کی مثالیں دی جاتی ہیں: مالی سال 2023-24 کے لیے بنگلا دیش کا بجٹ 761,785 کروڑ ٹکہ کا تھا۔ کل آمدنی کا تخمینہ 500,000 کروڑ ٹکہ لگایا گیا ہے۔ مجوزہ بجٹ کا مجموعی خسارہ 261,785 کروڑ ٹکہ تھا۔

2023-24 کے بنگلا دیش کے بجٹ کا 65فی صد مقامی ٹیکسوں سے حاصل ہونا تھا جب کہ 35فی صد خسارے کو مقامی قرض (20.4 فی صد) غیر ملکی قرض (13.5 فی صد) اور غیرملکی امداد (0.5فی صد) سے پورا کیا گیا۔ بنگلا دیش کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرحد سمبر 2023 میں 7.8 فی صد تھی۔ مالی سال 2023 میں بنگلا دیش حکومت کا کل قرضہ (اندرونی وبیرونی ملاکر) 166.65 ارب ڈالر تھا۔ بنگلا دیش کی قرض ٹو جی ڈی پی کی شرح تقریباً 40 فی صد ہے۔ (جاری ہے)