پینے کے پانی کا پنپتا بحران

291

دنیا بھر میں پانی کا بحران سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ پانی کے بحران سے مراد ہے پینے کا صاف پانی۔ یہ پانی بارش کے ذریعے بھی حاصل ہوتا ہے اور پہاڑوں، گلیشیرز پر جمی ہوئی برف کے پگھلنے سے بھی ملتا ہے۔ جب شدید گرمی میں پہاڑوں اور گلیشیرز کی برف پگھلتی ہے تب متعلقہ دریاؤں میں طغیانی آ جاتی ہے اور سیلاب کے ہاتھوں غیر معمولی تباہی بھی واقع ہوتی ہے۔ اصل نقصان یہ ہے کہ جو پانی ذخیرہ کرلیا جانا چاہیے اُس کا بڑا حصہ دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندروں میں جا گرتا ہے۔ اِس دریا کو سمندروں ہی میں جانا چاہیے تاہم مرحلہ وار۔ اگر بڑے اور زیادہ ڈیم بناکر پانی ذخیرہ کرلیا جائے تو پہاڑوں کی پگھلی ہوئی برف کی صورت میں ملنے والا پانی مختلف علاقوں یا خطوں میں بروئے کار لائے جانے کے بعد سمندر میں گرے گا۔ اِس صورت میں پانی کا بحران پیدا نہیں ہوگا۔

ماہرین نے تحقیق و تجزیے کی روشنی میں بتایا ہے کہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر کم برف باری کے باعث پانی کے معاملے میں شدید بحرانی کیفیت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی ممالک اور خطوں میں پینے کے پانی کا بحران شدت اختیار کرسکتا ہے۔ برف پگھلنے کی رفتار بڑھنے سے خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، متعلقہ بین الحکومتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دریاؤں میں اچانک پانی کی مقدار ہی نہیں بڑھ رہی ہے بلکہ ماحول کے لیے بھی غیر معمولی نوعیت کی منفی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بعض مقامات پر جنگلی حیات کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہمالیہ کے پہاڑ سلسلے میں کم برف باری سے پینے کے صاف پانی کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے گلیشیرز کی برف پگھلنے سے کروڑوں افراد کو پینے کا پانی میسر ہو پاتا ہے۔ گلیشیرز کی برف پگھلنے سے آنے والا پانی زیریں علاقوں کے 12 بڑے دریاؤں کی پیاس بجھاتا ہے۔ نیپال میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹیڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) کی رپورٹ کے مصنف شیر محمد کہتے ہیں کہ پینے کے پانی سے متعلق کام کرنے والے ماہرین، محققین، پالیسی میکرز اور زیریں علاقوں میں آباد لوگوں کے لیے یہ ویک اپ کال ہے، خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر فوری طور متوجہ ہوکر تدارک کے اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کا شدید بحران کروڑوں افراد کی زندگی کے لیے جان لیوا مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ شیر محمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمالیائی سلسلے کے پہاڑوں پر گرنے والی برف میں کمی اور برف کے جمے رہنے کی میعاد میں کمی بیشی کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے کروڑوں افراد کے لیے پینے کے پانی کے بحران کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ پانی پر تجارت و صنعت کا بھی مدار ہے۔

ہمالیہ کے پہاڑوں اور گلیشیرز پر جمنے والی برف کے پگھلنے پر ملنے والے پانی پر پہاڑی علاقوں کے 24 کروڑ اور دریاؤں کی ترائی میں رہنے والے ایک ارب 65 کروڑ افراد کی گزر بسر ہے۔ برف باری کا تناسب سالہ بہ سال کم ہوتا جارہا ہے جو اِن تمام لوگوں کے رہن سہن پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ قدرتی ماحول میں رونما ہونے والی گراوٹ کے باعث بارشوں کا نظام درہم برہم ہوتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں کہیں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے اور کہیں بالکل نہیں ہوتی۔ یہ انتہائی نوعیت کی کیفیت کروڑوں انسانوں کے لیے صحت کے مسائل بھی پیدا کر رہی ہے۔ بعض علاقوں میں شدید گرمی پڑنے اور بارشیں نہ ہونے سے متعدد وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ شیر محمد کا کہنا ہے کہ پہاڑوں پر برف کے جمے رہنے کی مدت میں بھی 20 فی صد کمی واقع ہوچکی ہے۔ ہندو کُش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں رواں سال یہ ٹرینڈ مضبوط رہا ہے۔ 18.5 فی صد کی ’’سنو پرسسٹنس‘‘ (یعنی پہاڑوں پر برف کے ٹِکے رہنے کا تناسب) 22 سال میں کم ترین ہے۔

آئی سی آئی ایم او ڈی بنیادی پر بین الحکومتی ادارہ ہے جس میں نیپال کے علاوہ افغانستان، بھارت، بنگلا دیش، بھوٹان، چین، میانمر اور پاکستان کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ آئی سی آئی ایم او ڈی کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ رواں سال پانی کے بہاؤ میں غیر معمولی کمی بیشی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ ادارہ ہندو کش اور ہمالیہ کے خطے میں برف باری کا دو عشروں سے بھی زائد مدت سے جائزہ لیتا آرہا ہے۔ رواں سال معاملات زیادہ پریشان کن رہے ہیں۔ ماہرین نے کئی برس کی تحقیق کی روشنی میں بتایا ہے کہ اب حکومتوں کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔

بھارت میں دریائے گنگا اور افغانستان میں دریائے ہلمند کی ترائی کے علاقے میں پہاڑوں پر برف کے جمے رہنے کی میعاد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں برف کے تیزی سے پگھلنے پر دریاؤں میں اچانک طغیانی آجاتی ہے اور بہت بڑے پیمانے پر فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ آئی سی آئی ایم او ڈی میں سینیر کرایوسفیئر اسپیشلسٹ مریم جیکسن نے متعلقہ حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری متوجہ ہوکر معاملات کو مزید خرابی سے بچائیں۔ معاملات اُس حد تک پہنچ گئے ہیں جہاں 70 کروڑ سے زائد افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ پانی کی شدید کمی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ فصلیں متاثر ہونے سے فوڈ سیکورٹی کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ (بہ شکریہ : اے ایف پی)