کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) ’’ماں دودھ بینک ‘‘کا قیام اور تجارت غیر شرعی ہے، حرمت رضاعت متاثر ہوگی‘ رضاعی بہن بھائی کااسلامی تصور دم توڑ جائے گا‘عالمی تنظیم ’’مجمع الفقہ الاسلامی ‘‘نے 10سال قبل انسانی دودھ کی خریدوفروخت کو متفقہ طور پرناجائز قرار دیا تھا‘ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں قائم ہیومن مِلک بینک کا منصوبہ روک دیا۔ان خیالات کا اظہار چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اور دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور کے ناظم اعلیٰ علامہ مفتی ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی، مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ ڈاکٹر مفتی نعمان نعیم‘ جید عالم دین، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن مفتی محمد زبیر، فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولانا عطا اللہ عبدالرؤف اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیو نیٹولوجی کراچی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر جمال رضا نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ماں کے دودھ سے متعلق بینک کا قیام شریعت کے نزدیک کیسا ہے؟‘‘ مفتی محمد راغب حسین نعیمی نے کہا کہ مائوں کے دودھ کو جمع کرنے کے لیے بینک قائم کرنا غیر شرعی ہے‘ ہر وہ رشتہ جو ولادت کے تعلق سے حرام ہے‘ رضاعت سے بھی حرام ہو جاتا ہے‘ مغرب کی نقالی کرتے ہوئے ماںدودھ بینک قائم کرنا جائز نہیں ہے کہ کسی کو پتا نہ ہوکہ کس بچے نے کس ماں کا دودھ پیا ہے تو اس طریقے سے رشتہ رضاعت کی پہچان مشکل ہو جائے گی‘ بچے کو ماں کے دودھ پلانے کی مدت 2 سال ہے‘ ہر وہ رشتہ جو ولادت کے تعلق سے حرام ہے‘ رضاعت سے بھی حرام ہو جاتا ہے‘ اسلام نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ والدہ کے علاوہ دوسری عورت بھی بچے کو دودھ پلا سکتی ہے جسے رضاعی ماںکا رتبہ ملتا ہے‘ اگر بچہ خدا نخواستہ ماں اور باپ دونوں سے محروم ہو جائے تو اس کو دودھ پلانے کا انتظام کرنا اس کے ورثا کی ذمہ داری ہے‘ اگر کوئی ادارہ مائوں کا دودھ جمع کرنے کے لیے بینک قائم کرنا چاہتا ہے تو باقاعدہ طور پر میکنزم بنانا پڑے گا جس میں ماؤں کاباقاعدہ اندراج ہوگا اور ماں کے دودھ کی کنفرمیشن ہوگی اور اس کے بعد جس کو پلایا جا رہا ہے اس کا بھی پورا ریکارڈ بنایا جائے گا اور ان دونوں خاندانوں کا آپس میں رابطہ کروایا جائے تاکہ وہ آئندہ بھی آپس میں رابطے میں رہیں‘ اس حوالے سے جتنے بھی شرعی ایڈوائزری بورڈز ہیں ان تمام کو اس میں شامل کرنا چاہیے تو پھر آپ اس معاملے کو بہتر انداز میں حل کر سکتے ہیں‘ یہ بلڈ بینک کی طرح نہیں ہونا چاہیے کہ جو مرضی آئے خون دے جائے۔ مفتی نعمان نعیم نے کہا کہ ہیومن مِلک بینک سے حرمت رضاعت کے حوالے سے بھی سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں‘ انسانی دودھ کی تجارت ایک غیر اخلاقی اور غیر اسلامی عمل ہے‘ مفتیان کرام نے آج سے 10 سال پہلے مجمع الفقہ الاسلامی جو عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم ہے جس میں دنیا کے جید علما کرام اور مفتیان کرام ہیں انہوں نے غور کے بعد ماں کے دودھ بینک کے قیام کو ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا تھا آج بھی وہی فتویٰ متفقہ رائے ہے، اس کے باوجود اس طرح سے ملک بینک قائم کرنا نامناسب ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے‘ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اس لیے اس طرح کے اقدامات سے پہلے علما کرام کی رائے کومد نظر رکھنا چاہیے‘ ہیومن مِلک بینک سے رضاعی بہن بھائی کا تصور جو مذہب اسلام نے دیا ہے وہ دم توڑ جائے گا، اسی طرح انسانی دودھ کی تجارت کا ایک سلسلہ بھی چل پڑے گا،جو ہمارے معاشرے کے لیے سود مند نہیں ہوگا۔ انسانی دودھ ایک بچے کا حق ہے اور اسے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔مفتی محمد زبیر نے کہا کہ موجودہ حالات میں خواتین کا دودھ جمع کر کے باقاعدہ ہیومن ملک بینک قائم کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے اور اس کے ناجائز اور حرام ہونے کے کئی اہم ترین شرعی اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ جب کئی خواتین کا دودھ جمع کر دیا جائے گا اور کوئی بچہ اس کو پیئے گا تو اس سے رضا عت والا رشتہ قائم ہو جائے گا‘ اب کس بچے نے کس خاتون کا دودھ پیا ہے‘ کتنے بچوں نے پیا ہے کون سی خواتین مائیں بنی ہیں اور کتنے بچوں کی رضائی ماں بنی ہے ‘ اس کا کوئی امتیاز کا دروازہ اور راستہ موجود نہیں ہے‘ اسی طرح انسانی دودھ کی خرید و فروخت کا دروازہ کھل جائے گا جو انسانیت کے اعزاز اور تکریم کے بھی خلاف ہے۔ مولانا عطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ ماں سے متعلق دودھ بینک کراچی میں قائم کیا گیا ہے‘ یہ عالمی ایجنڈا ہے‘ عالمی ادارہ صحت کے تحت یہ تصور سب سے پہلے 18 ویں صدی میں سامنے آیا اور پھر 19 ویں صدی میں ہیومن مِلک بینک قائم کیا گیا‘ حضور اکرمؐ نے فرمایا جو رشتے نسب سے ثابت ہوتے ہیں وہی رشتے رضاعت سے بھی ثابت ہوتے ہیں یعنی نسبی طور پر جو بھائی بہن ہیں وہ اسی طریقے سے رضاعت کے توسط سے بھی بھائی بہن اور دیگر رشتوں سے منسلک ہو جاتے ہیں‘ ان کی بھی حرمت ویسی ہی ہے جیسے نسبی رشتوں کی ہوتی ہے لہٰذا جب ایک نامعلوم عورت کا دودھ ایک نامعلوم بچے کو دیا جائے گا تو اس کے نتیجے میں رضاعتی نسب باہم گڈ مڈ ہو جائیں گے اور آگے چل کر پھر اس شرعی حکم کی عملاً کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی پھر ہمارے معاشرے کے اندر دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ دودھ آخر آئے گا کہاں سے تو جو کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ ہیں وہ تو خیر سے بچے پیدا کرنے کو ہی اچھا نہیں سمجھتے اور اگر پیدا کر بھی لیں تو بسا اوقات اپنے بچوں کو اپنا دودھ دینا گوارا نہیں کرتے، کجا یہ کہ کسی غیر کے بچے کے لیے وہ اپنا دودھ وقف کرتے ہیں لہٰذا یہ سارا بوجھ ان غریب ماؤں پر منتقل ہو جائے گا جو پہلے ہی معاشی پریشانی کا شکار ہیں اور ان کے استحصال کی ایک نئی صورت سامنے آ جائے گی کہ ان سے قیمتاً یہ دودھ خریدا جائے اور خود اس خاتون کا اپنا بچہ جسے خوراک کی ضرورت ہے اس کو خوراک سے محروم رکھا جائے جیسے ہمارے ہاں انسانی اعضا کی پیوندکاری کا ناجائز اور غیر قانونی کام جاری و ساری ہے اور کتنے ہی غریب لوگ اپنے قیمتی ترین اعضا سے محروم ہو چکے ہیں تو اس طرح یہ دودھ جب غریب ماؤں سے اکٹھا کیا جائے گا تو نتیجتاً ان کے اپنے بچے خوراک سے محروم رہ جائیں گے‘ پھر حضور اکرمؐ کی حدیث مبارک ہے کہ یقیناً تم اپنے سے پچھلی امت یعنی یہود و نصاریٰ کے طرز پر چلو گے، یہاں تک کہ بالش برابر بالش، ہاتھ برابر ہاتھ، بازو برابر بازو اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو کر رہو گے تو آپ ؐ نے ہمیں اس سے خبردار کیا کہ آندھی تقلید کے چکر میں نہ پڑیں‘ ماں کے دودھ بینک قائم کرنا اور دودھ کی فروخت کوئی آسان عمل نہیں ہے‘ کئی ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرنے کے بعد یہ دودھ اس قابل ہوگا کہ کسی بچے کو دیا جا سکے جس میں مختلف بیماریوں سے اس کی اسکریننگ بھی شامل ہے جس پر ایک کثیر سرمایہ خرچ ہوگا جب اس کے مقابلے میں مارکیٹ میں بچوں کو پلانے والا دودھ موجود ہے تو آخر اتنا زیادہ سرمایہ اس پر کیوں خرچ کیا جائے گا‘ اگر کسی بچے کو پرورش اور زندہ رہنے کے لیے لازمی ماں کے دودھ کی ضرورت ہے تو اس کی بہتر صورت یہ ہو سکتی ہے کہ جو عورتیں دوسرے بچوںسے رضاعی رشتہ قائم کرنا چاہتی ہیں تو ان کی رہنمائی کی جائے اور پھر وہ خاتون اس کے ساتھ رضاعتی رشتہ قائم کر لیں‘ اس طرح ماں بھی معلوم ہوگی اور بچہ بھی معلوم ہوگا‘ اندھی تقلید اور وہ بھی مغرب کی، اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو مغرب میں نکل چکا ہے وہاں خاندانی نظام بکھر کر رہ گیا ہے‘ رشتوں کا تقدس پامال ہو چکا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس آفت سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھے امین۔ پروفیسر ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں قائم ہیومن مِلک بینک کا منصوبہ روک دیا گیا ہے‘ مِلک بینک دارالعلوم کراچی سے فتویٰ حاصل کر کے قائم کیا گیا تھا‘ علما و مذہبی طبقات کے اعتراض کے بعد دوبارہ فتوے کے لیے رجوع کیا گیا‘ دارالعلوم کراچی سے دوبارہ فتویٰ جاری ہونے پر یہ منصوبہ روک دیا گیا ہے‘ مزید رہنمائی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کر لیا ہے‘ ہیومن مِلک بینک کے ذریعے 34 ہفتے قبل پیدا ہونے والے بچوں کو دودھ دیا جانا تھا ایسے بچے بہت کمزور ہوتے ہیں، اکثر ماؤں کا دودھ ناکافی ہوتا ہے، اوپر کا دودھ بیماریوں کا باعث بنتا ہے، بچوں کی زندگی بچانا مقصد تھا۔