کراچی:مفتی محمد زبیرنے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں خواتین کا دودھ جمع کر کے باقاعدہ ہیومن مِلک بینک قائم کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے کے ناجائز و حرام ہونے کے کئی اہم ترین شرعی اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ جب کئی خواتین کا دودھ جمع کر دیا جائے گا اور کوئی بچہ اس کو پیے گا تو اس سے دودھیائی یعنی دودھ کا رشتہ رضا عت والا رشتہ قائم ہو جائے گا۔
مفتی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ کس بچے نے کس خاتون کا دودھ پیا ہے، کتنے بچوں نے پیا ہے، کون سی خواتین مائیں بنیں اور کتنے بچوں کی رضاعی ماں بنی ہے اس کا کوئی امتیاز کا دروازہ اور راستہ موجود نہیں ہے اور اس طرح خاتون کا دودھ پینے سے قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ جو خواتین ماں بن جاتی ہیں تو حسب و نسب کے احکام رشتے ناتے کے احکام شدید طور پر متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح انسانی دودھ کی خرید و فروخت کا دروازہ کھل جائے گا جو انسانیت کے اعزاز اور تکریم کے بھی خلاف ہے۔ اسی طرح غریب خواتین اپنی چھاتی سے اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے بجائے تبرعن اور احساناً وہاں ملک بینک میں دودھ جمع کرانے کے بجائے باقاعدہ فروخت کریں گی، دوسری طرف متمول اور مالدار خواتین اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے بجائے خرید کر پلائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں بہت سارے مفاسد ہیں۔ اسی وجہ سے او آئی سی کے ماتحت اسلامک فقہ اکیڈمی مجمع الفقہ الاسلامی نے جدہ میں عالمی اسلامی ا سکالرز کی کانفرنس بلا کر طویل غور و خوض کے بعد اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔
اسی طرح عالم اسلام کی مشہورغیر متنازع اور سب سے بڑی علمی شخصیت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اس ملک بینک کے قیام کو موجودہ حالات میں ناجائز اور حرام قرار دیا ہے، لہذا اس سے اعتراض کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماؤں کے دودھ بینک کے قیام میں جہاں ایک طرف شرعی محذورات(avoids) پائے جاتے ہیں وہاں سائنسدانوں اور فزیکل ایکسپرٹس کی ایک بڑی تعداد بھی فریز شدہ دودھ کے استعمال کو متعدد وجوہات کی وجہ سے نقصان کا باعث قرار دیتی ہے۔ مثلاًفریز شدہ دودھ کی ضرورت نا ہونے کے برابر ہے۔قیمتاً بہت مہنگا ہوتا ہے۔دودھ ہبہ (donation) کرنے والیوں کی تعداد کا بہت کم ہونا۔فریز کرنے کی وجہ سے دودھ کا جراثیم زدہ ہونا وغیرہ جب کہ شرعی اعتبار سے نسب مخلوط ہونے کے علاوہ بھی دیگر کئی محذورات پائے جاتے ہیں۔