مسجد میں نماز جنازہ
سوال: آج کل بعض بڑی مسجدوں میں نماز جنازہ ادا کی جانے لگی ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ منبر سے قریب ایک دروازہ لگادیا جاتا ہے، جنازے کو لاکر مسجد سے باہر اس دروازے سے قریب رکھ دیا جاتا ہے۔ تمام نمازی مسجد میں ہی صف بنالیتے ہیں۔ امام صاحب اس دروازے پر آکر نماز پڑھا دیتے ہیں۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ مسجد میں جنازے کی نماز پڑھنی جائز نہیں ہے۔ کیا مذکورہ بالا صورت اس سے مختلف ہے یا اسے بدرجہ مجبوری گوارا کرلیا گیا ہے؟ برائے کرم وضاحت فرمادیں۔
جواب: مسجد میں نماز جنازہ کو عموماً پسندیدہ نہیں سمجھا گیا ہے۔ یہی معمول عہد نبوی میں بھی تھا۔ مدینہ میں مسجد نبوی سے قریب ایک جگہ خاص کردی گئی تھی۔ وہاں جنازہ لاکر رکھا جاتا تھا اور وہیں نماز پڑھی جاتی تھی۔ اسی بنا پر بعض فقہا (امام ابو حنیفہؒ اور ایک قول کے مطابق امام مالکؒ) نے عام حالات میں مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ ان کا استدلال ایک حدیث سے بھی ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی، اسے کچھ اجر نہیں ملے گا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، مسند احمد)
جب کہ اس حدیث کو حسب ذیل الفاظ سے بھی روایت کیا گیا:
’’جس شخص نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی، اس پر کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ (سنن ابی داود)
دوسری طرف اللہ کے رسولؐ سے بعض مواقع پر مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی وفات ہوئی، لوگ ان کا جنازہ لے جانے لگے تو حضرت عائشہؓ اور دیگر امہات المؤمنینؓ نے خواہش کی کہ جنازے کو مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھ سکیں۔ اسے صحابہ نے ناپسند کیا، اس لیے کہ اس کا معمول نہ تھا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: لوگ کتنی جلدی بھول گئے کہ اللہ کے رسولؐ نے بیاضہ کے بیٹوں سہل اور سہیل کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی تھی۔ (مسلم)
اس حدیث کی بنا پر امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور امام اسحاقؒ مسجد میں نماز جنازہ کو جائز قرار دیتے ہیں۔ بلکہ امام شافعیؒ تو اسے افضل قرار دیتے ہیں، اس لیے کہ مسجد پاکیزہ جگہ ہوتی ہے۔
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ یہ عمومی حکم نہیں ہے۔ البتہ بارش ہورہی ہو، میت کا کوئی قریبی رشتے دار حالتِ اعتکاف میں ہو، یا کوئی دوسرا معقول عذر ہو تو مسجد میں نماز جنازہ بلا کراہت جائز ہے۔
خلاصہ یہ کہ وقتِ ضرورت مسجد میں نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے وہ مناسب ہے کہ جنازہ مسجد سے باہر رکھا جائے اور نمازی مسجد میں رہتے ہوئے نماز پڑھ لیں۔ شہروں میں یوں بھی کھلی جگہیں کم ہیں یا آبادی سے دور ہیں اس لیے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
٭…٭…٭
غائبانہ نماز جنازہ
سوال: ایک عالمی شہرت کی حامل دینی شخصیت کا انتقال ہوا۔ مختلف ممالک میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھے جانے کی خبریں موصول ہوئیں۔ ہم نے بھی اپنے شہر میں اس کا اعلان کیا تو ہمارے رفقا کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ بعض نے کہا کہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔
برائے کرم وضاحت فرمادیں۔ کیا شرعی طور پر غائبانہ نماز جنازہ کی اجازت نہیں ہے؟ اگر ہے تو کب تک پڑھی جاسکتی ہے؟ کیا میت کی اس کے اپنے مقام پر نماز جنازہ پڑھے جانے سے قبل دوسرے مقام پر غائبانہ پڑھی جاسکتی ہے؟
جواب: غائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسولؐ کو جب شاہ حبشہ نجاشی کے انتقال کی خبر ملی تو آپ صحابہ کرام کے ساتھ نکلے اور ایک جگہ جمع ہو کر اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری، مسلم)
امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نجاشی کی نماز جنازہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن اس کا معاملہ اس کی قوم میں مشتہر نہ ہوا تھا۔ چوں کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی، اس لیے رسولؐ نے اس کا اہتمام فرمایا۔ یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ رسولؐ کی حیات طیبہ میں بہت سے صحابہ کرام کی شہادت اور وفات کے واقعات پیش آئے۔ بئر معونہ اور بعض دیگر مواقع پر بڑی تعداد میں صحابہ کی شہادت ہوئی۔ غزوہ موتہ میں آپ کے متعین کردہ تینوں سرداروں اور بہت سے مسلمانوں کی شہادت کا الم ناک واقعہ پیش آیا، لیکن آپ سے کبھی ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنی ثابت نہیں ہے۔ خود جب رسولؐ کی وفات کا حادثہ فاجعہ پیش آیا تب بہت سے صحابہ کرام دور دراز علاقوں میں مقیم تھے، لیکن ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے کہیں آپ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ کو معمول بنالینا درست نہیں، البتہ کسی بڑی شخصیت کی وفات پر اگر غائبانہ نماز جنازہ پڑھ لی جائے تو نجاشی کے واقعے سے اس کی گنجائش نکلتی ہے، جیسا کہ بعض فقہا نے اس کے جواز کی رائے دی ہے۔