دین میں جبر!
قرآنِ مجید کی تاویل و تعبیر کا صحیح طریقہ اچھی طرح سمجھ لیں۔ آپ جس آیت کے معنی سمجھنا چاہتے ہوں، پہلے عربی زبان کے لحاظ سے اس کے الفاظ اور ترکیب (construction) پر غور کریں۔ پھر اسے سیاق و سباق (context) میں رکھ کر دیکھیں… اب میں آیت [لا اکراہ فی الدین] کو لیتا ہوں، جسے آپ نے مثال کے طور پر لیا ہے۔ اْس میں کہا گیا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ عربی زبان کے لحاظ سے ’دین میں‘ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک ’دین کو قبول کرنے یا اختیار کرنے کے معاملے میں‘ دوسرے ’دین کے نظام میں‘۔ ان دو تعبیروں میں سے کون سی تعبیر قابلِ ترجیح ہے؟ اس کا فیصلہ محض اس آیت کے الفاظ سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے آپ کو سیاق و سباق کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات… کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ اس سیاق و سباق میں صاف طور پر یہ معنی [ہیں] کہ اللہ کے متعلق مذکورہ بالا عقیدہ کسی سے زبردستی نہیں منوایا جائے گا، صحیح عقیدے کو غلط عقائد کے مقابلے میں پوری وضاحت کے ساتھ پیش کردیا گیا ہے، اب جو کوئی غلط عقائد کو چھوڑ کر اللہ کو اْس طرح مان لے جس طرح بتایا گیا ہے، وہ خود فائدہ اْٹھائے گا اور جو ماننے سے انکار کرے وہ آپ ہی نقصان میں رہے گا۔ اس کے بعد آپ پورے قرآن پر ایک نگاہ ڈالیے [تو] آپ دیکھیں گے کہ متعدد جرائم کے لیے سزائیں تجویز کی گئی ہیں، بہت سی اخلاقی خرابیوں کو دبانے کا حکم دیا گیا ہے، بہت سی چیزوں کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے… اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رسولؐ اور اصحابِ امرکی اطاعت کریں۔ ان سب احکام کو نافذ (enforce) کرنے کے لیے بہرحال قوتِ جابرہ (power coercive) کا استعمال ناگزیر ہے، خواہ وہ ریاست کی طاقت ہو یا سوسائٹی کے اخلاقی دبائو کی طاقت۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘ کہنے سے قرآن کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ اسلامی نظامِ زندگی میں سرے سے جابرانہ قوت کے استعمال کا کوئی مقام ہی نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ دین اسلام کو قبول کرنے کے معاملے میں جبر کا کوئی کام نہیں، جو قبول کرنا چاہے وہ اپنی آزاد مرضی سے قبول کرے اور جو قبول نہ کرنا چاہے، اسے کوئی زبردستی ایمان لانے پر مجبور نہ کرے گا۔ (’ایک امریکن پروفیسر کے نام‘، سیّدمودودیؒ، ترجمان القرآن، اکتوبر 1955ء)
٭…٭…٭
توبۃ النصوح
یہ جو فرمایا کہ توبۃ النصوح کرو، اس سے مراد ہے خالص توبہ، ایسی توبہ جو سچے دل کے ساتھ کی جائے۔ یہ لفظ نصیحت سے ماخوذ ہے جو عربی زبان میں خیرخواہی اور اِخلاص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (اْردو میں اس کا استعمال مختلف ہے)۔
نصوح وہ شخص ہے جو اپنا خیرخواہ ہے، اپنا بدخواہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سے کوئی قصور سرزد ہو، اور اس کے بعد وہ اللہ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتا، اْس سے معافی نہیں مانگتا، توبہ نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیںکہ وہ خود اپنا بدخواہ ہے۔ پہلے اس نے گناہ کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو اس نے اپنے ساتھ بدخواہی کی۔ دوسری طرف وہ اپنے رب کے سامنے توبہ بھی نہیں کرتا، ا س سے معافی بھی نہیں مانگتا، یہ اپنے ساتھ اس کی گناہ کے ارتکاب سے بھی بڑی بدخواہی ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے آپ کو خود خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص قصور کرتا ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے تو جس کا وہ قصور کرتا ہے وہ لامحالہ اس کو اس کے قصور کی سزا دے گا۔ اس طرح وہ شخص خود اپنی شامت کو بلاتا ہے۔ چنانچہ توبۃ النصوح کے معنی یہ ہوئے کہ جو شخص اپنا خیرخواہ ہو اور اپنی شامت نہ بلانا چاہتا ہو، بلکہ اپنی بھلائی چاہتا ہو، اس کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ خطا سرزد ہوجانے کے بعد اس پر نادم ہو، اور سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کرے، اس سے معافی چاہے۔ (درس قرآن، سورۂ تحریم، ترجمان القرآن، جنوری 2013ء)