نماز: شکر و تعظیم کا جذبہ

314

یہ احساس کہ زندگی کا لمحہ لمحہ اور جسم کا رواں رواں اللہ کی نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے، شکر کا سچا جذبہ پیدا کرتا ہے، اور اگر شکر کے اظہار کے لیے نماز جیسی صورت معلوم ہوجائے تو پھر انسان کو بہت خوشی ہوتی ہے، درحقیقت نماز شکر کے جذبات کا اظہار کرنے کی بہترین صورت ہے۔ نماز ادا کرتے ہوئے انسان کا پورا وجود ہر ہر پہلو سے شکر ادا کررہا ہوتا ہے۔
رسولؐ رات میں اتنی طویل نمازیں پڑھتے کہ قدموں میں ورم آجاتا، لوگ کہتے کہ آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے ہیں، تو آپ فرماتے کیا میں بہت زیادہ شکر ادا کرنے والا بندہ نہیں بنوں۔ (متفق علیہ)
اللہ کے رسولؐ کی نمازیں شکر کے جذبے سے معمور ہوا کرتی تھیں، شکر کا سچا جذبہ انسان کو نماز کے لطف سے آشنا کرتا ہے، اور طویل سے طویل تر نماز پڑھنے پر اکساتا ہے، انسان نماز ادا کرتے ہوئے شکر کے اعلی مراتب حاصل کرتا ہے۔
شکر کا جذبہ جس قدر طاقتور ہوگا اسی قدر نماز میں لطف آئے گا، شکر کا جذبہ کوئی مصنوعی جذبہ نہیں ہے، اور نہ اس کے لیے کسی مصنوعی کوشش کی ضرورت ہے، انسان غفلت کی ناپسندیدہ حالت سے باہر آجائے، ہر چار سو پھیلی ہوئی بے شمار نعمتوں کو دیکھے، تو ضرور شکر کا جذبہ بیدار ہوجائے گا، اور وہ جذبہ جب نماز میں شامل ہوگا تو نماز شکر کی حسین کیفیت سے آراستہ ہوجائے گی۔

کسی خاص خوشی کے موقع پر نماز شکر ادا کرنا قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے، لیکن ہر نماز کو شکر کے جذبے سے ادا کرتے ہوئے شکر کی نماز بنالینا، عین روح نماز ہے۔
اللہ کی بنائی ہوئی اس عظیم کائنات میں رہتے ہوئے اور ہر طرف اللہ کی عظیم صفات کا مشاہدہ کرتے ہوئے، اللہ کی حمد وثنا اور تعظیم وتمجید کرنے کا جذبہ نمود پاتا ہے، اور تسکین کے لیے بہتر صورت اور تعبیر تلاش کرتا ہے۔
نماز اللہ پاک کی عظمت کا اظہار کرنے کی بہترین صورت ہے، نماز کے افعال، قیام پھر رکوع پھر سجود اور قعود، اور ان افعال کے ساتھ تکبیر، حمد اور تسبیح جیسے اذکار، رب عظیم کی تعظیم کی بہترین ادائیں ہیں۔ نماز میں انسان کا پورا وجود پہلو بدل بدل کر نوع بہ نوع تعبیروں سے اللہ کی تعظیم کرتا ہے۔

اللہ کی عظمت کا نقش دل پر جتنا گہرا ہوتا ہے، اللہ کی حمد وثنا کرنے کا جذبہ اتنا ہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے، اس عظیم کائنات کے خالق کی عظمت کا احساس اس کی تعریف اور عظمت کے گن گانے کی طاقتور ترغیب دیتا ہے۔
جب اللہ کی مدح وثنا اور تعریف وتعظیم کے جذبے سے نماز ادا کی جاتی ہے، تو نماز کیف اور لطف سے بھرپور عبادت بن جاتی ہے، ایسی عبادت جس کا شوق بار بار اس کی طرف لے جاتا ہے۔
تعظیم کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کوئی مصنوعی کوشش درکار نہیں ہے، کائنات کے شمس وقمر سے لے کر قطرہ قطرہ اور ذرہ ذرہ اللہ کی عظمت کی گواہی دے رہا ہے، اللہ کی بہترین کاریگری کے شاہ کار نمونے ہر طرف سے دعوت نظارہ دیتے ہیں، وہ شخص شدید غفلت یا پھر نہایت بدذوقی کا شکار ہے جو اس کائنات میں رہتا ہو اور اس کے دل میں اللہ کی مدح وثنا کا جذبہ پیدا نہ ہو، اس جذبے کے ہر آن امنڈنے کے لیے دل کی زندگی اور فطرت کی سلامتی کافی ہے۔

عظیم ہستیوں کی تعریف کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے، اگر عظمت اور احسان ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو یہ جذبہ بڑھ جاتا ہے۔ اورجب رب عظیم اور رب کریم کی بات ہو، جو بے پناہ عظمت والا اور بخشش والا ہے، تو تعظیم کا جذبہ بھی بے پناہ ہوجاتا ہے، اور بندے کو اپنے رب کی تعظیم اور شکرکے بغیر چین نہیں آتا۔ قرآن مجید میں اللہ کے لیے ذو الجلال والاکرام کی صفت ذکر کی گئی ہے، جس کا ترجمہ ہے: عظمت والااور نوازنے والا۔
خاص بات یہ ہے کہ ہمیں ہر جگہ اور ہر حال میں اللہ کی نعمتوں کی رفاقت حاصل رہتی ہے، کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا ہے جب اللہ کی نعمتیں ہمارے ساتھ نہ ہوں۔ اسی طرح ہم ہر آن اللہ کی عظمت کا مشاہدہ کرتے ہیں، کوئی حالت ایسی نہیں ہوتی ہے، جب اللہ کی عظمت کے بے شمار مظاہر ہماری نگاہ کے سامنے نہ ہوں۔ معلوم ہوا کہ دن اور رات کی ہماری کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی ہے جو کسی بھی وجہ سے جذبہ شکر اور جذبہ تعظیم سے خالی رہ جائے۔