حج کے مبارک سفر سے سعادتوں کے ساتھ واپس آنے والے خوش قسمت برادران کے لیے دیدہ و دل فرش راہ! محترم بزرگوار اور عزیز بھائیو! کیا آپ نے حج کو اچھی طرح جانا اور سمجھا بھی؟ اْس سے جو کچھ لینا تھا لیا؟ آپ اپنے ساتھ، اپنے اور دوسروں کے لیے کیا لے کر آئے؟ حج نے آپ سے کچھ باتیں کیں؟ اْس نے کوئی پیغام آپ کو ودیعت کیا؟ یا آپ صرف آبِ زم زم، کھجوریں، جانمازیں اور تسبیحیں لے کر آگئے؟
بہت سے حاجی ہیں جو اگرچہ ہمیشہ حاجی کہلائیں گے، مگر وہ اپنے حج سے دْور ہوتے جاتے ہیں۔ جس دنیا کے مفاد سے وہ کچھ دیر کے لیے الگ ہوئے تھے، وہ پہلے سے زیادہ زور اور پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ دبوچ لیتے ہیں۔
اصل میں بات بڑی نازک سی ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ: ’’شیطان کو اذان کی آواز سخت ناپسند ہے اور وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر اس سے بھاگتا ہے‘‘۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’وہ جب کسی شخص کو خدا کے سامنے سربسجود دیکھتا ہے تو اسے بہت ناگوار ہوتا ہے‘‘۔ خصوصاً حج جیسی عظیم عبادت سے جو شخص گزر کر آرہا ہے، اْس کا نام تو درخواست دینے کے دن سے ہی ابلیسی نظام کی لال کتاب میں درج ہوگیا۔ شیاطین جن سے زیادہ ذمے داریاں انسانی شیاطین کے سر ہوتی ہیں اور یہ اپنا کام دن رات جاری رکھتے ہیں۔ کچھ محبوب اور عزیز لوگ، کچھ کاروبار کے ساتھی، کچھ دفتروں کے ہم نشین، کچھ گائوں اور محلے کے خیرخواہ، کچھ دنیوی معاملات میں مشورے دینے والے، کچھ دین میں نئے نئے شگوفے نکالنے والے، کچھ قصیدہ خوان، کچھ خوشامدی، کچھ خدمت کیش!
حج کے ثمرات
حج فی الواقع بہت بڑی عبادت ہے اور بہت سی عبادات کی جامع!
حج میں ہجرت کا رنگ بھی شامل ہے، اور جہاد کا اسلوب بھی۔ اس میں ذکر ودعا بھی ہے اور رکوع و سجود بھی۔ مزدلفہ کی رات کی خاموش عبادت بھی اور لاکھوں کے مجمع میں یومِ عرفہ کا خطبہ بھی۔ احرام کی کفن نما پوشش بھی ہے اور عید کا خوش آیند لباس بھی۔ وہاں آنسوئوں کی جھڑیاں بھی ہیں اور مسکراہٹوں کی کلیوں کی لڑیاں بھی۔ آدمی بیک وقت وہاں بے ہمہ بھی ہوتا ہے اور باہمہ بھی۔ تھوڑی دیر کے لیے تارکِ دنیا بھی ہوتا ہے اور پھر نئی شخصیت کے ساتھ فاتحانہ شان سے دنیا کے دروازے پر دستک بھی دیتا ہے۔ بے شمار قبیلے اس کے اپنے بن جاتے ہیں، کتنے ممالک اسے اپنے ملک لگنے لگتے ہیں، مختلف بولیوں میں وہ ایک ہی جیسے معانی جھلملاتے دیکھتا ہے۔ تنگ عصبیتوں اور تالاب جیسی محدود قومیت سے آگے بڑھ کر وحدت کے ایک سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔
حاجی جب اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ میں نے دل سے مان لیا کہ خدا ساری قوتوں سے بڑی قوت ہے، اور اْس کا دین برتر ہے، اور اْس کا قانون سب سے فائق ہے، اْس کا اقتدار سب پر غالب ہے، اور اْس کا حکم ہر طرف جاری و ساری ہے۔ وہ جب لَبَّیکَ اَللّٰھْمَّ لَبَّیکَ کہتا ہے تو دراصل اپنے آپ کو بارگاہِ الٰہی میں پیش کرتا ہے کہ میں آپ کی پکار پر حاضر ہوں اور عمل سے اقرار کرتا ہے کہ جدھر آپ بلائیں گے، اْدھر مجھے حاضر پائیں گے، جدھر سے آپ ہٹائیں گے میں اْدھر سے ہٹ جائوںگا۔ پھر اپنے احرام سے وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو موت کے اْس خط پر کھڑا کر دیا ہے جس سے مجھے ایک نہ ایک دن آگے جانا ہے اور زندگی کا حساب پیش کر کے جزاو سزا سے حصہ پانا ہے۔ وہ جب بیت اللہ نامی مکان کا طواف کر رہا ہوتا ہے تو دراصل اْس کی روح خداوند لامکانی کا طواف کر کے یہ ظاہر کرتی ہے کہ میرا مرکز و محور صرف ذاتِ الٰہی ہے، اْس کی طرف لپکنا، اْسی سے محبت، اْسی کے لیے فدائیت اور اْسی کی اطاعت! وہ جب حجر اسود کا استلام کرتا ہے تو دراصل اپنے رب و الٰہ کے سنگ ِ آستاں کو اْس کے جذبات چوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ جب مقامِ ملتزم پر کھڑے ہوکر ایمان و بخشش کی دعائیں کرتا ہے اور اپنے والدین کی مغفرت کی درخواست کرتا ہے تو گویا وہ ایوانِ جاناں کی چوکھٹ کو تھامے ہوئے ہوتا ہے اور بے اختیار روتا ہے۔ وہ صفا و مروہ میں سعی کرتا ہے اور پھر لمبی پیاس کے ماروں کی طرح پیٹ بھر کر آبِ زم زم پیتا ہے۔ اگر جذبہ صحیح ہو تو یہ آبِ زم زم وجہ شفاء القلوب ہے اور قلوب اگر صحت مند ہوں تو بدن آسانی سے امراض کا شکار نہیں ہوتے۔
سیدہ ہاجرہ اور سیدنا اسماعیلؑ کے احوال و جذبات سے حصہ پانے کے لیے صدیوں پہلے کی تاریخ کو کھینچ لاتا ہے۔ وہ جب عرفات کے بے پایاں ہجوم میں موجود ہوتا ہے تو اْس کے سامنے میدانِ حشر کا سا نقشہ آجاتا ہے۔ وہ قربانی کرتا ہے تو دراصل اس کا استعارہ یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے آپ کو اسی طرح احکامِ الٰہی کے تحت قربانی کے لیے پیش کردوں گا جس طرح حضرت اسماعیلؑ نے برضا و رغبت پوری شانِ صبر کے ساتھ پیش کر دیا تھا۔ یہاں اسے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ میں جو آدابِ فرزندی ابراہیمی تعلیم و تربیت نے پیدا کیے تھے، وہی اسے اپنی اولاد میں پیدا کرنے ہیں۔ تب اْس کے دل میں حضرت ابراہیمؑ کے اس ارشاد کا صحیح مفہوم نقش ہوجاتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے۔
حج کی دعاؤں کا حاصل
حاجی جب مقامِ ابراہیم پر نوافل ادا کرتا ہے تو اس کے کانوں میں باپ بیٹے کی دعائیں گونجنے لگتی ہیں۔ قرآن میں ہے:
’’اور یاد کرو، ابراہیم اور اسماعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اْٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اْٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں سے خود انھی کی قوم سے ایک رسول اْٹھائیو جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے‘‘۔ (البقرہ: 137-139)
حاجی اس دعا کی صداے بازگشت سنتے ہوئے یہ نکتہ پا لیتا ہے کہ جس گھر کی تعمیر کا ذکر ہے، وہ حرم ہے جو اس کے سامنے ہے۔ یہ توحید پر استوار ہوا ہے۔ یہ سچے خدا پرستوں کا ایک مرکز دل و نظر ہے، یہ امن کا ایک سرچشمہ ہے، انسانیت کی پناہ گاہ ہے اور اس کی یہ شان برقرار رکھنا اصلاً اللہ تعالیٰ کے اپنے اہتمام سے ہے، لیکن ظاہری طور پر رسولؐ کے بعد پوری اْمت محمدیؐ کا فریضہ ہے کہ وہ خدا کے اس گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے ہر قسم کے شرک کی آلایش اور ہر قسم کے فساد کی رکاوٹ سے پاک رکھیں۔
پھر اس دعا میں یہ آرزو کی گئی ہے کہ دعا کرنے والوں کو مسلم بنا۔ ایک حاجی کو بھی یہ جذبہ ان فضائوں سے نچوڑ کر لانا چاہیے کہ وہ مسلم بن کر رہے، وہ خدا کا مطیع فرمان ہو، وہ نہ بغاوت و سرکشی اختیار کرے، نہ شرک و نفاق کی راہیں نکالے۔ مسلم ہو تو حنیف ہو، یک سْو ہو، ایک ہی رب سے لو لگا لے اور ایک ہی الٰہ کے جلوئوں سے دل کے پنہاں خانے کو روشن کرلے۔
دعا کرنے والوں نے صرف اپنے لیے ہی نعمت ِ اسلام نہیں مانگی، بلکہ اپنی نسل سے بننے والی قوم کے لیے یہ درخواست بھی کی کہ اس کو اپنا مسلم و مطیع بنایئے گا اور اْس کے اندر سے اپنا رسول مبعوث فرما کر ان کو بھی صحیح راہِ عبادت اورطریقۂ اسلام بتایئے گا۔ معلوم ہوا کہ خدا کے رسولؐ کا دامن تھامے بغیر اور اْس کی لائی ہوئی الہامی تعلیم کو قبول کیے بغیر زندگی میں نہ عبادت کا رنگ پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ مسلم بن کے جینا ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رسول آئے اور خدا کی آیات بندوں تک پہنچائے، ہدایت اْن کو پڑھ کر سنائے، خدا کی کتاب اور حکمت ِ دین کی اْن کو وسیع تر تعلیم دے۔ پھر اْن کی زندگیوں کو فکری و اعتقادی لحاظ سے اور اخلاقی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے بھی سنوارے۔
اب تو سوال صرف یہ ہے کہ ہم سب مسلمان اس تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیۂ حیات سے سبق لے کر اپنی اور معاشرے کی زندگی کو کیسے اسلامی زندگی بناتے ہیں؟
انقلابِ آفریں حج کیوں نہیں؟
کتنی عجیب بات ہے کہ کسی قوم کے کئی ہزار افراد ہر سال حج کرکے آتے ہوں اور پھر بھی اس کے اعتقادی اور اخلاقی احوال خراب رہیں۔ اگر ایک ہزار بیدار دل حاجی بھی ہر سال ہمارے معاشرے میں پوری روح کے ساتھ جلوہ گر ہوتے اور ہر سال ایک حاجی 10 افراد کے سینوں میں ایمانِ باعمل کی شمعیں فروزاں کردیتا تو خداپرست، محبت کیش، وفاشعار لوگوں کی ایسی صفیں کی صفیں تیار ہو جاتیں، جو اسلام کو ایک زندہ قوت میں بدل سکتی تھیں۔
اگر آپ ہمارے ذہنی احوال کو دیکھیں تو ہم میں بے حسی بھی ملے گی، جمود بھی ملے گا، بے روح اعتقادات ملیں گے، ان پر مناظرانہ بحثیں ملیں گی، رسمیات کی ایک مستقل شریعت ملے گی، شرک و بدعت کے مظاہر ملیں گے۔ اسی طرح معاشی زندگی میں ایک طرفہ فاقہ مستیاں اور دوسری طرف چیرہ دستیاں، ایک طرف بے روزگاری اور دوسری طرف اسراف و تبذیر، ایک طرف مجبوری و بے بسی اور دوسری طرف ظلم و تشدد، دفتری زندگی میں کام چوری اور رشوت، کاروبار میں چور بازاری اور ملاوٹ اور گراں فروشی، سماجی طور سے غلاظت و جہالت اور بیماری و بدکاری، امن کے پہلو سے جرائم اور لْوٹ مار۔ آخر اس فضا کو بدلنے کے لیے ہمارے لاکھوں حاجیوں کا حج انقلاب آفریں کیوں نہیں بنتا؟
کلمہ ایک انقلابی نور ہے، اذان انقلابی پکار ہے، نماز روزہ انتہائی انقلاب انگیز عبادتیں ہیں، صدقہ خدائی انقلاب کے علَم برداروں کی توانائی ہے… اور حج جو بہت سی عبادات کا جامع ہے، وہ تو تاریخ میں بہت عظیم مدوجزر پیدا کرنے والی طاقت ہے۔ تبدیلی نہ کلمے میں آئی ہے، نہ اذان اور نماز میں، نہ روزہ و صدقے میں، اور نہ حج و قربانی میں، البتہ جمود آفریں تبدیلی خود ہمارے اندر آئی ہے۔ زندگی کے تمام خدوخال متحجر ہوگئے ہیں۔ تحریکیت کا سیلابی دریا یخ بستہ ہوگیا ہے۔
مگر یہاں اْجالا کیوں نہیں ہوتا اور ذرّے آفتاب کیوں نہیں بنتے!
اس کی وجہ تو یہ ہے کہ حج اور شعائر ِ حج کی حقیقت کا پوری طرح شعور نہیں ہوتا۔ چنانچہ کتنے ہی طائفین حرم ہیں جو واپس آکر پھر وہی کے وہی کام کرنے لگ جاتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثر حاجی مطمئن ہوکر لوٹتے ہیں کہ اگلے پچھلے گناہ معاف ہوگئے اور اب ان کی روح ٹھیک ٹھاک ہوگئی ہے، لہٰذا وہ دوبارہ اپنی دنیا کی دل فریبیوں میں مگن ہوجاتے ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض حاجیوں میں اپنے متعلق ایک طرح کا احساسِ عظمت و افتخار پیدا ہوجاتا ہے۔ کچھ ان کے گردوپیش کے لوگ اور ان کا گھریلو اور سماجی ماحول بھی ان کے احساسِ افتخار کو پرورش دیتا ہے، حتیٰ کہ بعض لوگ تو مقامِ کبر تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ پندار بعد ِ حج کی برکات کے حصول میں حجاب بن جاتا ہے۔ پھر نہ ان کی ذات میں کوئی تبدیلی آتی ہے، نہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سنوارنے کی فکر کرتے، نہ کاروبار کا نقشہ بدلتے ہیں، نہ عادات و اطوار کے بْرے پہلوئوں کو چھانٹ کر ان کو نئی ترتیب دیتے ہیں۔
چوتھی وجہ کچھ لوگوں کی حد تک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ حج کے بعد مکمل طور پر دْنیوی مشاغل کو ترک کر کے جانماز اور تسبیح کو سنبھال لیتے ہیں۔ اْن کی تسبیح اور جانماز کے حلقے کے باہر کی دنیا ایمانی و اَخلاقی طور پر تباہ ہوتی رہے تو وہ بے نیاز رہ کر اپنی عاقبت سنوارنے میں لگے رہتے ہیں۔ اِس طرح وہ قوت جو ہرسال حج سے پیدا ہونی چاہیے، وہ اصلاحِ زندگی کے کام کے لیے غیرمؤثر بن جاتی ہے۔
آپ پوری سوچ بچار سے یہ عہد کرکے اپنے ہاں نئی زندگی کا آغاز کریں کہ ایک طرف آپ کو اپنی ساری سرگرمیوں کا جائزہ لے کر ان تمام چیزوں کو چھانٹ دینا ہے جو خلافِ دین ہیں یا مشتبہ ہیں۔ اپنے نئے مشاغل کا پورا نقشہ ازسرِنو تیار کرنا ہے۔ دوسری طرف آپ کو اپنے گھر کے ماحول کو بدلنا ہے۔ ایک حاجی کے گھر میں نماز اور قرآن کا دور دورہ ہونا چاہیے۔ ایک حاجی کے گھر میں پردے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ایک حاجی کے گھر میں نہ حرام مال داخل ہونا چاہیے۔ تیسری طرف آپ کو یہ فکر کرنی ہے کہ آپ اپنے محلے، اپنے علاقے یا شعبے، اپنے کاروباری یا دفتری حلقے میں خدا اور رسولؐ کے دین کی دعوت کس طرح پھیلائیں اور اس کام میں کس جماعت یا ادارے یا کن افراد کے ساتھ تعاون کریں۔
حج کے بعد آپ کو دعوتِ دین کا زبردست علَم بردار ہونا چاہیے۔ خدا آپ کو حج کے بعد کی زندگی میں مزید سعادتیں اور برکتیں عنایت فرمائے، آمین!