قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان کی صورت میں انسانی رُوح آزاد ہو گئی ہے کہ وہ تخلیقی میدان میں اپنے جوہر دکھائے۔ عوام نے تو قائد اعظم کی بات سنی نہیں، لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے قائد اعظم کے مشورے کے ایک ایک حرف پر بہ اندازِ دیگر عمل کر کے دکھا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان لمیٹڈ بن کر رہ گیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ الزام درست نہیں، ہمارے آئین میں وطن عزیز کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان لمیٹڈ نہیں۔ بیشک آئینی پوزیشن یہی ہے اور بلا شبہ یہ ایک بڑا ستم ہے اور اسے جلد از جلد دور ہونا چاہیے۔
پاکستان کی اس حیثیت کو بے چارے عوام تو ابھی تک نہیں سمجھے، لیکن غیر ملکی قوتوں نے یہ بات پہلے ہی مرحلے پر سمجھ لی تھی اور نہ صرف سمجھ لی تھی بلکہ لمیٹڈ کمپنی کے ڈائریکٹر صاحبان کا تعین بھی کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو کبھی ایک ملک اور پاکستانی قوم کو بھی ایک قوم نہیں سمجھا اور نہ انہوں نے کبھی کسی ’’ملک‘‘ یا کسی ’’قوم‘‘ سے رابطے کی ضرورت سمجھی۔ انہوں نے جو معاملہ بھی کیا ڈائریکٹر صاحبان ہی سے کیا۔
دیکھا جائے تو یہ کوئی ایسی عجیب و غریب بات نہیں، تیسری دُنیا کے اکثر ملکوں کا یہی حال ہے۔ کمیونسٹ روس میں بھی ایک ’’اشرافیہ‘‘ تھی جو ملک چلا رہی تھی اور سوشلسٹ چین میں آج بھی یہی منظر ہے۔ خود امریکا کا یہ حال ہے کہ سی آئی اے، پنٹا گون اور محکمہ خارجہ عوام کے سامنے جس قسم کی چاہیں تصویر پینٹ کر دیتے ہیں اور پھر اس پر عوامی تائید حاصل کر کے کہہ دیا جاتا ہے کہ عوام کی یہ رائے ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ روس کی کمیونسٹ پارٹی، پولٹ بیورو اور کے جی بی ایک بہت بڑے دائرے کا نام تھا۔ یہ اشرافیہ تھی، لیکن ایک اچھی خاصی وسیع البنیاد اشرافیہ تھی۔ چین کا معاملہ بھی یہی ہے۔ رہے تیسری دُنیا کے ملک تو ان کی اپنی اپنی اشرافیہ ہے، لیکن یہ اشرافیہ سو، ڈیڑھ سو خاندانوں تک محدود ہے۔ ایسے خاندانوں تک جن میں قریبی رشتے داریاں ہوں، جن کے نتیجے میں مارشل لا لگے یا جمہوریت بحال ہو، اقتدار چند افراد کے ہاتھ میں رہتا ہے۔
پاکستان کا المیہ صرف یہی نہیں ہے کہ اس پر ایک بہت چھوٹی سی اشرافیہ قابض ہے، بلکہ پاکستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ اس اشرافیہ کو کس بھی نظریے یا خیال سے کوئی علاقہ نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا لیکن پاکستان اسلامی ریاست نہ بن پاتا تو ایک ’’اچھی‘‘ سیکولر ریاست ہی بن جاتا۔ یہ بھی ممکن نہ تھا تو ہم ایک سوشلسٹ ریاست ہی بن جاتے۔ آپ کمال اتا ترک کو مذہبی حوالے سے کچھ بھی کہیے، لیکن وہ زندگی کے بارے میں ایک نظریہ، ایک خیال تو رکھتا تھا۔ ایسا نظریہ، ایسا خیال، جس کے حوالے سے اس نے جدید ترکی کی تعمیر کی۔ کیوبا چھوٹا سا ملک ہے اور کمیونزم کا پوری دنیا سے خاتمہ ہو گیا ہے، لیکن کیوبا میں سوشلزم کاسترو کے نام پر کھڑا ہوا ہے۔ امریکا کاسترو کا صفایا چاہتا تھا اور اسے ڈراتا دھمکاتا رہتا تھا، کاسترو عوام میں مقبول تھا اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اسلامی جمہور یہ تو خیر کیا بنتے، ہم ترکی اور کیوبا بھی نہ بن سکے اور بنتے بھی تو کیسے، ہماری اشرافیہ کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ اس کا اگر کوئی نظریہ ہے تو صرف نظر یہ مال یا کھاؤ، پیو، مزے اْڑاؤ۔
اس خوبصورت ملک اور اس شاندار قوم میں بڑے امکانات تھے، لیکن ہمارا حکمران طبقہ ان امکانات سے ہمیشہ خوف زدہ رہا۔ چنانچہ اس نے قوم کو پہلے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی بنیاد پر تقسیم کیا، پھر صوبوں اور زبانوں کی بنیاد پر تقسیم کیا، یہاں تک کہ مذہبی بنیادوں کو بھی تقسیم در تقسیم کے عمل کے لیے بروئے کار لے آیا گیا ہے۔ بیشک پاکستانی قوم کے مختلف حصوں میں امتیازات بھی تھے لیکن مماثلتیں امتیازات سے کہیں زیادہ تھیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ امتیازات ثانوی نوعیت کے حامل تھے، جبکہ مماثلتیں بنیادی نوعیت کی حامل تھیں۔ لیکن ایک منصوبے کے تحت امتیازات کو ہوا دی گئی اور مماثلتوں کو دبایا گیا۔ یہاں تک کہ امتیازات کو بنیادی اور مماثلتوں کو ثانوی بنادیا گیا اور آج یہ صورت حال ہے کہ ہر صوبہ اور ہر لسانی وحدت، دوسرے صوبے اور دوسری لسانی وحدت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ 75سال سے غیر ملکی قوتوں کی تابع فرمانی اور اپنی ہی قوم کو ختم کرنے میں لگا رہا ہے۔ اگر یہ کوئی کارنامہ ہے تو بلا شبہ انسانی تاریخ میں اس سے بڑا کارنامہ آج تک انجام نہیں دیا گیا۔
آج اکثر لوگوں کو اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ میاں نواز شریف کی سہولت سے تاریخ کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھارت کو گلے لگا رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ کو تو اس وقت پس پشت ڈالا جائے گا جب کوئی تاریخ ہوگی۔ ہمارا حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ دراصل ہماری کوئی تاریخ ہی نہیں ہے، اگر کچھ ہے تو Tectics ہیں۔ کل کی Tectic یہ تھی کہ بھارت کو دشمن قرار دیا جائے اور بھارت کے ساتھ ایک خط کی آمد و رفت کو بھی مشکل ترین بنا دیا جائے۔ آج کی ’’حکمت عملی‘‘ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کی جائے۔ حکمرانوں کے نزدیک کشمیر میں ہونے والا جہاد بھی کوئی جہاد نہیں تھا، بلکہ ایک حکمت عملی ہی تھی اور حکمت عملی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور Tectics کا قصہ یہ ہے کہ ان سے کوئی تاریخ نہیں بنتی۔ جس قوم کے حکمرانوں کے لیے اسلام بھی ایک Tectic ہو، سوشلزم بھی ایک حربہ ہو اور سیکولر ازم بھی ایک حربے سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا ہو اس کی بھلا کیا تاریخ ہو سکتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی تاریخ ہی نہیں ہے تو پھر تاریخ کو پس پشت ڈالنے کا سوال ہی نہیں اْٹھتا۔ اب اگر کوئی سادہ لوحی میں ایسا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے۔
بلا شبہ عوام کو ان حقائق کا رتی برابر ادراک نہیں البتہ طویل تجربات سے ایک بات انہیں تھوڑی بہت معلوم ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ اس ملک کے معاملات میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس حقیقت کے ادھ کچرے سے احساس نے عوام کو ریاست کے معاملات سے لا تعلق بنا دیا ہے۔ قائد اعظم نے عوام کی قوت سے ایک ملک بنایا تھا اور ہمارے حکمران طبقے نے عوام کی ناطاقتی سے ایک ملک کو لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عوام کی یہ ناطاقتی ریاست ہی کے لیے نہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان لمیٹڈ کے لیے بھی خطرناک ہے۔