بجٹ، ہیرا پھیری اور پھیرا پھیری

291

مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک جھوٹ، دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد وشمار۔ بجٹ میں ہیرا پھیری کو بہت زیادہ منفی معنوں میں نہ لیا جائے یہ اعداد وشمار کی جادوگری ہے جو عام آدمی سمجھ سکتا ہے اور نہ حکومت بجٹ کے حوالے سے عام آدمی کو سمجھانا چاہتی ہے اس کے بعد دوسرا لفظ اسی کے ہم وزن تاکہ خاص ترنگ میں اسے گنگنایا جا سکتا ہے۔ پھیرا پھیری کا قریب ترین مفہوم جو بنتا ہے وہ لیپا پوتی ہوسکتا ہے۔ جب سے ہم نے شعور کی زندگی میں قدم رکھا ہے اور جب سے بجٹ سنتے چلے آرہے ہیں کچھ باتیں تو ہر بجٹ میں قدر مشترک کے طور پر موجود رہی ہیں پہلی بات تو یہ کہ بجٹ پیش کرنے والی حکومتی پارٹی اور ان کے حمایتی اس بجٹ کی بڑی تعریف کرتے ہیں کہ یہ انتہائی متوازن اور غریبوں کا بجٹ ہے ایسا بجٹ تو پہلے کبھی پیش ہوا ہے نہ آئندہ کوئی دے سکے گا۔ اور پھر اس کی اپوزیشن پارٹیاں اس بجٹ کو یہ کہہ کر مسترد کرتی ہیں کہ امیروں کے مفاد کا بجٹ ہے اس سے غریبوں کا کوئی بھلا نہیں ہوگا بلکہ غریب، غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے امیر تر ہو جائیں گے۔ اس بجٹ میں حکومت کو کوئی خامی نظر آتی ہے اور نہ اپوزیشن کو کوئی خوبی۔ دوسری بات ہم مسلسل یہ دیکھتے چلے آرہے ہیں کسی بجٹ سے کبھی غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ ہر بجٹ کے بعد غربت اور مہنگائی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ تیسری چیز ہر بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے ساتھ ہی پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ’’قیمتوں میں رد وبدل‘‘ کے خوبصورت نام سے کیا جاتا ہے ہمارے یہاں عام طور پر مئی کے مہینے میں بجٹ آتا ہے (اس دفعہ جون میں آیا) ہوتا یہ ہے کہ مارکیٹ میں مہنگائی بجٹ کے اعلان کے ساتھ بڑھ جاتی ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہوتا ہے اور عملاً اس کے ہاتھ میں اگست میں اضافی رقم آتی جبکہ اس سے تین گنا رقم وہ خرچ کرچکا ہوتا ہے دوسری طرف پرائیویٹ سیکٹر میں مالکان مختلف بہانوں سے ڈائون سائزنگ کا اعلان کرتے ہیں اس سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ چوتھی جو بات ہر بجٹ کے موقع پر سامنے آتی ہے کہ یہ بجٹ عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کا بنایا ہوا ہے جو ہمارے وزیر خزانہ صرف پڑھ کر سنایا ہے، جبکہ حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
اس دفعہ کو جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں تو حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس بجٹ میں آئی ایم ایف کی تجاویز کو شامل کیا گیا ہے۔ ویسے تو سابق صدر ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب کا تعلق بھی عالمی مالیاتی اداروں سے تھا۔ اس دفعہ بجٹ کے موقع پر آئی ایم ایف کا ایک بھرپور وفد ملک میں پہلے سے موجود تھا اور اس وفد کے احکامات کی روشنی بجٹ تیار کیا گیا ہے۔ ایک اور زاویہ سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا بجٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ آج 16جون کے اخبارات میں، چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال سے پروسسنگ اور پیکڈ آٹا، دال، چاول، چینی اور مصالحوں پر 18فی صد سیلز ٹیکس عائد ہوگا، انہوں نے مزید کہا کہ دودھ کی کمپنیوں نے میں دو برس کے دوران اپنی مصنوعات کی قیمتیں دو بار بڑھائیں اور ان کمپنیوں نے صارفین پر مزید بوجھ بڑھایا مگر حکومت کو کچھ دینے کو تیار نہیں حیران کن ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈسٹری بیوٹرز بھی ٹیکس نیٹ میں نہیں۔ اس وقت درآمدی دودھ مقامی دودھ سے دوگنی قیمت پر فروخت ہورہا ہے ایک ڈبے کی قیمت 800 روپے تک کردی اور پھر بھی یہ کمپنیاں ٹیکس میں کمی کا مطالبہ کررہی ہیں اگر یہ ڈبے کے دودھ کی قیمت کم کردیں تو ہم ٹیکس میں کمی پر غور کریں گے۔
اسی طرح ایک اور دل دہلا دینے والی خبر ہے کہ آئی ایم ایف کو منانے کے لیے حکومت نے شرائط پر پیشگی عملدرآمد شروع کردیا، آئندہ مال سال سے بجلی کے صارفین سے 2116 ارب روپے کیپسٹی چارجز لینے کا فیصلہ کرلیا گیا یعنی وہ بجلی جو عوام نے استعمال ہی نہیں کی بلکہ ان کمپنیوں نے وہ بجلی پروڈیوس ہی نہیں کی۔ آئندہ مال سال سے بجلی صارفین سے کل 3277 روپے وصول کیے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط پر بجلی کی قیمت کی مد میں 1116 ارب روپے اور کیپسٹی چارجز کی مد میں 2116 ارب روپے وصول کیے جائیں گے فیصلے کا اطلاق ملک بھر کے تمام صارفین پر ہوگا۔ ابھی تو بجٹ کے اور بھی اثرات سامنے آئیں گے اس پر وزیر اعظم شہباز شریف قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہداف پورے کر لیے تو یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پرگرام ہوگا۔ اس بجٹ کی خاص بات جو پہلے دن ہی آگئی تھی کہ بجٹ کی آدھے سے زیادہ رقم صرف قرضوں کے سود کی شکل میں ادا کی جائیں گے۔ پہلے بہت دعوے کیے جارہے تھے سرکاری اخراجات میں کمی کی جائے گی، اس حوالے سے صرف کمیٹیوں پر کمیٹیاں بن رہی ہیں کوئی عملی تجاویز سامنے نہیں آسکی۔ اسی طرح وزیراعظم نے کہا ہے کہ پی ڈبلو ڈی میں پچاس فی صد کرپشن ہے لہٰذا اس ادارے کو ختم کردیا جائے گا اس کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی جبکہ پی ڈبلو ڈی کے سربراہ کا کہنا ہے اس ادارے کو چونکہ آئینی تحفظ حاصل ہے اس لیے اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔
آخر میں ایک دلچسپ بات کے جس دن ہمارے وزیر خزانہ قوم کا خون چوسنے والا بجٹ پیش کررہے تھے تو ٹی وی اسکرین پر ایک ٹکر چل رہا تھا کہ آج خون کی عطیہ کرنے کا عالمی دن ہے۔ اس پر کئی لوگوں نے اپنے تبصرے کیے ہیں کہ کسی کا خیال ہے کہ پاکستانیوں کو بلڈ ڈونیشن سے مستثنیٰ کردیا جائے، اس لیے کہ جب ہم پٹرول لینے جاتے ہیں تو وہاں پر ہمارا خون نچوڑا جاتا ہے، جب ہم بجلی کا بل ادا کرنے جاتے ہیں تو وہاں خون نچوڑا جاتا ہے، جب ہم بچوں کی فیسیں ادا کرتے ہیں تو وہاں پر خون نچوڑا جاتا ہے اور اب تو بچوں کے دودھ، آٹا، دال، گھی، چینی خریدتے وقت بھی جنرل سیلز ٹیکس کی شکل میں ہمارا خون نچوڑا جائے گا۔