…تحریکِ حاکمیت

340

مسند ِ انصاف پر براجمان شخص فیصلہ سنانے سے قبل نیابت کے منصب کو مد ِ نظر رکھے تو سائل سائل نہیں رہتا مقرب بن جاتا ہے۔ مگر وطن ِ عزیز کا المیہ یہ ہے کہ خاص سائل کو مصاحب بنا لیا جاتا ہے یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ منصف خدا کا نائب ہوتا ہے سو یہ امر لازم ہے کہ اْسے غیر متنازع ہونا چاہیے مگر وطن ِ عزیز کی بد نصیبی یہ ہے کہ یہاں شخصیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔
تحریک ِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مقدمات کے دوران ایسے ریمارکس دیے جاتے ہیں جو انتہائی نامناسب ہوتے ہیں کیونکہ کوئی بھی جج قانون کے تقاضوں کو مد ِ نظر رکھنے کے بجائے ملزم کی مقبولیت کو اہمیت دے تو وہ جانبداری کا ثبوت دیتا ہے۔
برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ایسے ایسے نامی گرامی ڈاکو گزرے ہیں جو عوام میں بہت مقبول تھے لوگ اْنہیں غریب پرور اور نجات دہندہ کہتے اور سمجھتے تھے مگر انگریز عدلیہ ان کے جرائم کی روشنی میں سزا کا فیصلہ کرتی تھی۔ ملزم کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو جج اْسے مصاحب نہیں بناتا تھا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جج صاحبان جرائم کو نظر انداز کر کے ملزم کی مشہوری سے کیوں متاثر دکھائی دیتے ہیں کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جسٹس صاحبان سماعت کے دروان عمران خان پر لگے الزام کے بجائے اْن کی مقبولیت پر ریمارکس دیں اور کہیں کہ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں لاکھوں افراد اْن کے چاہنے والے ہیں۔ اس لیے مقدمے کی سماعت براہِ راست ہونا چاہیے اور جج صاحبان کے ریمارکس پر غور کیا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنے والوں کی ہم نوائی ضروری قرار پائے گی اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آزادی کی تحریک منزل مراد کا حصول نہیں تھا بلکہ حاکمیت کا حصول تھا۔ جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم کرنا تھا سو تحریک پاکستان کو تحریک ِ حاکمیت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ جب سائل کو مقرب سمجھنے کے بجائے مصاحب کا درجہ دیا جائے تو معاشی اور سیاسی بحران جنم لیتے ہیں۔ یہ کیسی اذیت ناک حقیقت ہے کہ سماعت کے دوران جج صاحب ملزم کے بارے میں ریمارکس دیں کہ یہ قومی بد نصیبی ہے کہ تم قید میں ہو حالانکہ قوم تمہیں نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ ایسے ریمارکس کی صورت میں جج انصاف کے تقاضے کیسے پورے کر سکتا ہے؟
بہاولپور ہائی کورٹ میں ایک جعلی مقدمہ 10 سے 11 برسوں سے زیرِ سماعت ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ زیرِ التواء ہے۔ پیشی پر مدعی کا وکیل کبھی آؤٹ آف اسٹیشن ہوتا ہے، کبھی اْس کی طبیعت ناساز ہوتی ہے، کبھی اہلیہ بیمار پڑ جاتی ہے، کبھی کوئی بچہ اسپتال میں زیر ِ علاج ہوتا ہے اور جج صاحب سماعت کے بجائے پیشی دے دیتے ہیں تو کبھی پیشی منسوخ کر دیتے ہیں اور کبھی وکیلِ محترم چھٹی کی درخواست دے دیتے ہیں عرصہ 10 سے 11 سال سے یہ ہی ہورہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جب سارے تاخیری حربے حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس فلاں دستاویز گم ہوگئی ہے فراہم کی جائے۔ حالانکہ دستاویز کے لیے متعلقہ برانچ سے رجوع کیا جاتا یا مخالف وکیل سے طلب کی جاتی۔
مؤرخہ 2024-06-10 کو بابا جی کی پیشی تھی ہائی کورٹ بہاولپور کے ستم زدہ بابا جی کی پیشی تھی مخالف وکیل نے پھر کسی دستاویز کی درخواست کی تو جسٹس صاحب مدعا علیہ کے وکیل سے پوچھا کیا دستاویز کی فراہمی کا حکم جاری کر دیا جائے؟
مدعا علیہ کے وکیل نے کہا کہ آپ فائل دیکھ کر فیصلہ کریں کہ اس دستاویزکی ضرورت ہے کہ نہیں؟ جسٹس صاحب نے اگلی پیشی سنا دی اور فرمایا کہ آئندہ پیشی پر فیصلہ کروں گا۔ حالانکہ مذکورہ مقدمہ سول کورٹ، سیشن کورٹ سے عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہوچکا ہے اور طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ موصوف ہی اس کے وکیل ہیں اور اس کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ اس پش منظر میں مزید سماعت کی ضرورت ہی نہیں۔
اگر دیانتداری سے عدالتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہماری عدالتیں مجرموں کو تحفظ دینا اپنا فریضہ سمجھتی ہیں جرائم کے فروغ کی اصل وجہ بھی یہ ہی ہے۔ جج صاحباں جو خدا کے نائب ہوتے ہیں نیابت کا فریضہ نبھائیں تو سائلین کو عدالت کے دھکے کھانے ہی نہ پڑیں۔