اسلام آباد میں جناح ایوینو کو شاہراہ دستور سے ملانے والے چوک کو، ڈیموکریسی کی مناسبت سے ڈی چوک کہا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ ہم کسی شاہراہ کو، کسی گلی یا کسی اہم چوراہے کو کسی خاص واقعہ سے منسوب کرکے اسے نیا نام دے دیتے ہیں، کبھی یہ نام چل جاتا ہے اور کبھی یہ نام لوگوں کو نہیں بھاتا، بہر حال یہ سلسلہ چل رہا ہے، راولپنڈی میں صدر سے فیض آباد کی سڑک کو مری روڈ سے ملانے کی وجہ سے مری روڈ کہا جاتا ہے، لیکن ماضی میں اس کا نام رضا شاہ پہلوی روڈ بھی رکھا گیا، پھر ابھی ماضی قریب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد حکومت نے مری روڈ کا نام بے نظیر بھٹو روڈ رکھ دیا، سینٹرل اسپتال جہاں محترمہ نے آخری سانس لیا، اس کا نام بھی تبدیل کرکے بے نظیر بھٹو اسپتال رکھ دیا گیا، لیکن مری روڈ ابھی تک مری روڈ ہی ہے، اور سینٹرل اسپتال کا نام بھی وہی پرانا ہے، ڈی چوک کے ساتھ بہت سے معروف سیاسی مظاہرے منسوب ہیں، حالیہ دنوں میں یہاں سینیٹر (ریٹائرڈ) مشتاق احمد خان نے غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل کے مظالم کی توجہ دلانے کے لیے یہاں دھرنا دیا، یہ دھرنا دو کارکنوں کی شہادت کے بعد کیمپ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد اسے غزہ چوک کہتے ہیں، اسی چوک میں ماضی میں جب تحریک انصاف نے دھرنا دیا تو اسے انصاف چوک کا نام دینا شروع کردیا، ابھی دو عشرے قبل یہ چوک مقامی لوگوں کے لیے ایک مشہور تفریحی علاقہ ہوا کرتا تھا، پاکستان ڈے پریڈ پہلے راولپنڈی میں ریس کورس گرائونڈ میں ہوا کرتی تھی، بعد میں اسے ڈی چوک میں منتقل کیا گیا، تو اسے پریڈ چوک بھی کہا جانے لگا اب یوم پاکستان کی پریڈ شکر پڑیاں منتقل ہوگئی ہے لہٰذا اب اس جگہ کو اب شکر پڑیاں پریڈ گراؤنڈ کہا جاتا ہے۔ کوئی اسے مصر کے تحریر اسکوائر سے تشبیہ دیتا ہے، لیکن یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ یہاں ڈاکٹر مرسی کو اقتدار ملا تو سیسی نے کیسے چھین لیا، جنرل سیسی ڈاکٹر مرسی کا ہی انتخاب تھے۔
ڈی چوک میں، سب سے پہلا بڑا مظاہرہ 4-5 جولائی 1980 کو ہوا تھا، یہ مظاہرہ کسی حد تک پر تشدد بھی تھا، ایران میں علامہ خمینی آچکے تھے، پاکستان میں جنرل ضیاء کی حکومت کو تین سال ہوئے تھے، یہاں ہونے والا مظاہرہ ضیاء الحق کی طرف سے زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس کے نفاذ کے خلاف تھا، جس کی قیادت ایک مذہبی گروپ کے راہ نماء نے کی، مفتی جعفر حسین کی قیادت تھی، مظاہرین نے سیکرٹریٹ کی عمارت پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد ان کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے اور انہیں نئے مجوزہ ٹیکسوں کی ادائیگی سے استثنیٰ دے دیا گیا، دوسرا بڑا مظاہرہ17 اگست 1989 کو ضیاء الحق کی پہلی برسی پر ہوا، نواز شریف نے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کی۔ وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے ہجوم انتظامیہ کی طاقت سے منتشر کردیا۔ تیسرا بڑا مظاہرہ16 نومبر 1992 کو پیپلزپارٹی اور اپوزیشن جماعتوں نے 1990 کے پاکستانی عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف کیا، ڈی چوک کی طرف مارچ کیا گیا، اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت کے بعد صدر غلام اسحاق خان بھی مستعفی ہوئے، نواز شریف برطرف ہوئے اور نئے عام انتخابات کرائے گئے، چیف جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی کے خلاف وکلا اور ان کے حامیوں نے پارلیمنٹ کے سامنے اپنا 2009 کا لانگ مارچ ختم کیا۔
جنوری 2013 میں، محمد طاہر القادری منہاج القرآن کے حامیوں کے ساتھ آگئے اور ڈی چوک پر دھرنا دیا، چند مطالبات منوا کر دھرنا ختم کرکے چلے گئے، اپریل 2014 میں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے لاپتا افراد کے خلاف ڈی چوک پر احتجاج کیا، اس سے پہلے پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ 14 اگست 2014 کو عمران خان اور محمد طاہر القادری نے نامعلوم کرداروں کے کندھوں پر بیٹھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لاہور سے اسلام آباد کے ڈی چوک تک آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی قیادت کی، اس کے بعد 126 دن کا دھرنا دیا گیا جو سانحہ پشاور 16 دسمبر 2014 کو نامعلوم کرداروں کے کہنے پر ہی ختم کیا،27 مارچ 2016 کو مذہبی جماعتوں کے ہزاروں مظاہرین ممتاز قادری کے چہلم کے بعد کئی دنوں تک ڈی چوک پر ڈیرے ڈالے رہے۔ فروری 2022 میں، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اپنے عوامی مارچ کی قیادت کی، جو کراچی سے شروع ہوا اور اسلام آباد کے ڈی چوک پر ختم ہوا، یہ اب تک کے چند ایسے مظاہرے اور احتجاج ہیں جو یہاں ہوئے ہیں، اس وقت یہاں غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے کیمپ لگا ہوا، پولیس کے بھی نرالے فیصلے ہوتے ہیں یہ ہمیشہ عوام کے اعصاب کا امتحان لیتی رہتی ہے، یہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے متعدد کارکنوں کی غزہ کیمپ سے گرفتاری بھی کسی کا امتحان بن سکتی ہے۔ اب گیند ضلعی انتظامیہ اور وزارت داخلہ کی کورٹ میں ہے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا غلطی ہوگی، وہ عوام ہوں یا کوتوال