کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) جدید ترین مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ کی سہولت کے باوجود معاشرے میں مطالعے کارجحان ختم ہوتا جارہا ہے، لائبریریاں سنسان ہورہی ہیں،ایسے میں قدرتی طورپر یہ سوال پیداہوتاہے کہ لوگوں کو کتاب اورمطالعے کی طرف راغب کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہییں؟ جسارت کی جانب سے پوچھے گئے سوال: معاشرے میں مطالعے کے رجحان کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے؟ اس موضوع پرجسارت نے چند اہلِ علم اور مختلف شعبوں سے وابستہ شخصیات سے بات چیت کی ہے جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔سینئر فیکلٹی ممبر، مینجمنٹ اکاؤنٹینسی فرحان سعید نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کتب بینی اور لائبریری کے استعمال سے پہلے قدیم دور میں قصہ خواں لوگوں کو داستانیں سنا کر محظوظ کرتے تھے۔ بعد میں ترقی کر کے تحریری شکل میں یہ سب کتابوں کی صورت میں انسان تک پہنچا ہے۔ وقت بدلا اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے کتابوں کو سوفٹ ویئر کی مدد سے ایک نئی شکل میں مہیا کر دیا ہے۔ آج کا طالب علم اب ڈیجیٹل لائبریری سے مستفید ہو رہا ہے۔ یوں وہ کتابوں سے تو نہیں البتہ یہ کہہ لیںکہ اْردو زبان و ادب سے دور ضرور ہو گیا ہے۔ شاید اس میں والدین کی طرف سے بھی کوتاہی کی گئی ہے۔قلم کار، لائبریرین لبنیٰ غزل کاکہنا تھا کہ کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔انٹرنیٹ کے علاوہ اور بھی عوامل ہیں جنھوں نے کتاب کو اپنے قاری سے دور کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر کسی کتاب کا مطالعہ کرنے سے وہ ذہنی آسودگی حاصل نہیں ہوتی جو ایک شائق کو کتاب کوچھونے اور اس کی خوشبو محسوس کر کے ہوتی ہے۔ کتاب سے فاصلہ کم کرنے کے لیے بچے کو ابتدا ہی سے کتاب سے رغبت دلائی جائے۔بچوں کے رسائل ماہنامہ گوگو، سم سم، جگمگ تارے، ساتھی اور خواتین کے رسالے کھلتی کلیاں کی ادارتی ذمے داریاں اداکرنے والے ماہنامہ آشیانہ کے مدیر اعظم طارق کوہستانی نے کہا کہ مطالعے کے رجحان میں کمی کے کئی اسباب ہیں،معاشرے میں صرف بچوں نے ہی نہیں بلکہ بڑوں نے بھی مطالعے سے منہ موڑ لیا ہے۔اس لیے اس کا شکار صرف بچے نہیں بلکہ بڑے بھی مطالعہ نہ کرنے کی اس وبا کا شکار ہیں۔بنیادی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ والدین نے خود مطالعہ کرنا چھوڑ دیا ہے، موبائل فون کا کثرت سے استعمال جہاں ان کے مطالع نہ کرنے کی وجہ ہے وہیں انھیں دیکھ کر بچے بھی کتاب کی طرف راغب نہیں ہورہے ہیں۔ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے لکھنے والے زیادہ تر ادیب اوسط درجے کا ادب تخلیق کررہے ہیں۔ سیلف پبلشنگ کے نتیجے میں کتابوں کی تو بھرمار ہوگئی ہے لیکن بسا اوقات100میں کوئی ایک آدھ کتاب ہی اس لائق ہوتی ہے کہ اسے مکمل اعتماد کے ساتھ بچوں کو پڑھنے کے لیے دیا جائے۔ بڑے ناشران کی عدم توجہی بھی اس کی ایک وجہ ہے۔مطالعے کے رجحان میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کی تمام اکائیاں مل کر اسے فروغ دیں۔یہ کسی ایک فرد یا ادارے کا کام نہیں ہے، اسے سبھی نے ملکر انجام دینا ہے۔مدرس ذیشان عارف کاکہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل نے لوگوں کو کتاب سے دور کر دیا ہے۔ موجودہ دور کی ضرورت کے لحاظ سے ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مختصر یا سرسری معلومات کی فراہمی کے سلسلے کو روکا جائیتاکہتفصیلی معلومات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ماہرنفسیاتسیما لیاقت کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں بہت زیادہ گلیمر نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔طلبہ ورق گردانی کے بجائے سرچ انجن کے ذریعے براہِ راست وہاں جانا چاہتے ہیں جہاں سے ان کا تحقیقی اسائنمنٹ باآسانی اور کم وقت میں تیار ہو جاتاہو، جسے دورِ جدید میں Copy Paste کہا جاتا ہے۔ اس طرح نوجوانوں میں کتب بینی کاشوق بھی کم ہوااور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ لگا۔مطالعے کی اہمیت اجاگرکرنے اور اس کوفروغ دینے کے لیے ہرسطح پر اجتماعی کوشش کرنا ہوگی۔ پھر ابتر معاشیحالات میں لوگ ’’اضافی اخراجات‘‘ کو ترک کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں، اہلِ علم اور لکھاری اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کتاب کی اہمیت اور افادیت سے متعلق کوئی پوسٹ کرکے کتاب کلچر کو پروموٹ کریں اور قارئین کو کتب بینی کی ترغیب دیں تو بھی فرق پڑے گا۔معلمہ انیلہ ارشد،اسکول ٹیچر اسماء ناصر، ایم فل کی طالبہ اْمّ البنین اور شعبہ جرمیات، جامعہ کراچی کی طالبہ فضہ اطہرنے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صد افسوس کہ اب مطالعے کا رجحان بتدریج گھٹ رہا ہے۔گھروںمیں سامان زیادہ کتابیںکم ہوتی ہیں، تعلیمی اداروں اورگھروں میں مطالعے کی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے۔ کتب خانوں میں بیٹھ کر کچھ دیر مطالعے کی سرگرمی اپنانا چاہیے۔ اسکولوں میں لائبریری کا پیریڈ لازمی ہونا چاہیے جس میں روایتی کتاب کا مطالعہ کیا جائے اور پھر جس نے جو کتاب پڑھی ہو اس سے متعلق چند سوالات کیے جائیں۔ اس طرح کے اقدامات سے ہر زمانے میں کتاب کو اور مطالعے کی عادت کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔