ارون دھتی رائے بہانہ شیخ شوکت نشانہ؟

284

بھارت کی معروف ناول نگار، مصنف اور سرگرم سماجی کارکن باسٹھ سالہ اروندھتی رائے پر غداری کے مقدمے کی منظوری دیدی گئی ہے۔ اب بھارت کا موجودہ سسٹم اور اس کے وسائل’’ دی گاڈ آف اسمال تھنگز‘‘ اور ’’کشمیر دی کیس آف فریڈم‘‘ نامی بیسٹ سیلر ناولوں اور دوسری کتابوںکی مصنفہ اور عالمی ایوارڈ یافتہ شخصیت کو غدار ثابت کرنے کے لیے وقف رہیں گے۔ اس کی وجہ کشمیر پر ان کے خیالات ہوں گے۔ وہ خیالات اور الفاظ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی انداز میں بھارت کے قومی مشاہیر اور آزادی کے ہیروز نے وقتاً فوقتاً دہرائے ہیں۔ ارون دھتی رائے نے 2010 میں کشمیر کے سیاسی قیدیوں کے حوالے سے ایک ایسے سیمینار سے خطاب کیا تھا جس سے سید علی گیلانی اور پروفیسرڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے بھی خطاب کیا تھا۔اس ڈائس کے پس منظر میں ’’آزادی واحد راستہ‘‘ کے الفاظ پر مشتمل بینر آویزاں تھا۔ اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ارون دھتی رائے کے الفاظ یوں تھے’’کشمیر کا علاقہ جس پر ہندوستان اور پاکستان دونوں کا مکمل طور پر دعویٰ ہے اور جزوی طور پر دونوں کے زیر انتظام ہے کبھی ہندوستان کا اٹوٹ حصہ نہیں رہا‘‘۔ اس تلخ مگر تاریخی حقیقت کے اظہار کو ان کی گردن کا پھندا بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ارون دھتی رائے کے اس بیان پر بھارتی ریاست کو اسی وقت خاصی تکلیف ہوئی تھی اور اسی لیے چند ہی روز بعد بھارت کی انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ ڈیڑھ سو کے قریب خواتین نے دہلی میں ارون دھتی رائے کی رہائش گاہ کے آگے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور ان سے بیان واپس لینے یا بھارت چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ارون دھتی رائے نے بیان واپس نہ لیا مگر برسوں بعد سشیل کمار نامی کسی پنڈت کی غیرت وحمیت جاگ پڑی اور اس ’’دل آزاری‘‘ کے بعد اس نے ریاست سے استدعا کی ارون دھتی رائے اور شیخ شوکت حسین پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔

برصغیر میں گم نام لوگوں کی دل آزاریاں ہونے کا رواج اب عام ہو چکا ہے اور وہ فوراً اپنے ناپسندیدہ کرداروں کو سزا دلوانے تھانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ شاید انگریز سامراج اپنے بہت سے طور طریقوں کے ساتھ ’’دل آزاری‘‘ کے اظہار اور ازالے کا یہ رواج اور رسم بھی ورثے میں چھوڑ کر گئے ہیں۔ اب بی جے پی سے تعلق رکھنے والے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے وی سکسینہ نے برسوں پرانے خطاب پر ارون دھتی رائے کے خلاف سشیل پنڈت کی دل آزاری کی شکایت کے تحت عدالت میں مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ مقدمہ یو اے پی اے کے انسداد دہشت گردی سے متعلق بدنام زمانہ قانون کے تحت چلے گا جس کا اطلاق پہلے ہی سیکڑوں کشمیریوں پر کیا جا چکا ہے۔ ارون دھتی رائے ریاست کے اس فیصلے کے بعد زیادہ پُراعتماد کھائی دے رہی ہیں۔ انہوں نے دی وائر کے کرن تھارپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ بھارت کو ایک فاشسٹ ریاست بنانے کا جو خطرہ چند برس پہلے تک بہت شدید دکھائی دیتا تھا اب کم ہو گا کیونکہ بھارت کے لوگوں نے اس رویے کے خلاف متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ بتارہی ہیں کہ بھارت میں فاشسٹ پالیسیوں کو ریورس گیئر لگ چکا ہے۔ وہ کسان تحریک اور حالیہ انتخابات میں عوامی رائے کو اس کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔

ارون دھتی رائے کا تعلق جنوبی بھارت کی ریاست آسام سے ہے اور وہ ان کے خیالات متنازع اور غیر مبہم رہے ہیں۔ کشمیر جیسے مسئلے پر جو بھارت میں حددرجہ حساس بنادیا گیا ہے ان کے جرأت مندانہ خیالات اسی رویے کا اظہار ہیں۔ بھارت کی ریاست ایک شہرہ آفاق بھارتی ناول نگار اور جانی پہچانی شخصیت پر غداری کا مقدمہ چلا نے میں کس حدتک کامیاب ہوتی ہے اور کیا وہ اس معاملے میں سنجیدہ بھی ہے؟ ان سوالوں سے قطع نظر یہاں بھی برق ایک کشمیری دانشور اور شہ دماغ پروفیسر شیخ شوکت حسین پر گرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے شیخ شوکت حسین سری نگر یونیورسٹی کے سابق پروفیسراور آزادی پسند لگیسی کے بہترین دماغوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ کشمیر کے ایک سیاسی تجریہ نگار، قانون بین الاقوم کے ماہر، حقوق انسانی کے سرگرم وکیل اور تنازع کشمیر پرکشمیر ساگا، کشمیر پروفائلز، فیسنٹس آف ری سرجنٹ کشمیر اور اسلام اینڈ ہیومن رائٹس سمیت کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے تصورات کو اپنے رنگ وآہنگ کے ساتھ اگلی نسل تک منتقل کرتے ہیں۔ اس لیے ارون دھتی رائے اس وار سے بچ پاتی ہیں یا نہیں مگر شوکت حسین جیسے کرداروں کو نشان ِ عبرت بنانا بھارتی ریاست کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ یوں بھی جب کوئی سامراج کسی قوم میں شعور کی لہروں کو روکنا چاہتا ہے تو اس کا اصل نشانہ اہل دانش اور بینش ہی بنتے ہیں کیونکہ یہ اپنی آنے والی نسلوں کو خواب دیکھنے، خواب بیچنے اور خواب دکھانے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ارون دھتی رائے کہ یہ سوچ بھارت کے شہریوں کے لیے ایک خوش خبری ہو سکتی ہے کہ بھارت میں فاشسٹ رویوں کو یورس گیئر لگ گیا ہے مگر کشمیریوں کے لیے اس میں امید کا کوئی پہلو نہیں۔

بھارت جب خالص جمہوری ملک بھی تھا تب بھی کہا جاتا تھا کہ اس کی جمہوریت کی حد لکھن پور یعنی جموں وکشمیر اور بھارت کی سرحد پر ختم ہوتی ہے اور اب اگر بھارت میں فاشسٹ رویوں کی کمزوری بھی ہوتی ہے تو یہ ضعف اور کمزور ی صرف لکھن پور پہنچ کر ٹھیر جائے گی اس سے آگے جموں وکشمیر کے عوام کے لیے بھارت کا دوسرا ہی پیمانہ رائج رہے گا کیونکہ بھارت کے فیصلہ ساز کشمیر کو سیکورٹی کے زاویے سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے خیالات اس خوف میں ڈھل کر رہ گئے ہیں کہ اگر انہوں نے کشمیر کو جمہوریت اور شہری آزادیوں کے فریم میں رکھ دیا تو اس سے کشمیر پر بھارت کی گرفت ڈھیلی پڑے گی اور چین یا پاکستان اس کمزور کا فائدہ اُٹھا کر کشمیر کو اس کے ہاتھ سے اُچک لیں گے۔ بھارت کو یہ اطمینان ہونا چاہیے تھا کہ جب تک اسے امریکا کی سرپرستی حاصل ہے اور پاکستان امریکا کے شکنجے میں ہے کوئی بھی کشمیر کو اس کے ہاتھ سے اُچک لینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ وگرنہ 1962 کی ہند چین جنگ تو اس کا بہترین موقع تھا جب چین نے بھارت کی فوج کو اُلجھا کر رکھ دیا تھا اور پاکستان کو کشمیر میں فوجی پیش قدمی کا مشورہ دیا تھا مگر امریکا نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے وعدۂ فردا کے تحت پاکستان کو کسی مہم جوئی سے روک دیا تھا۔ اس لیے ارون دھتی رائے اور شیخ شوکت حسین کے مقدمات دو الگ رویوں اور ذہنوں سے لڑے جائیں گے تو اس میں کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ یوں ریاست کے ان دونوں ملزموں کو کیرالہ اور کشمیر کے دو الگ خانوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ ارون دھتی رائے کا مقدمہ اور اس کی بنیاد بننے والے خیالات بہرحال مسئلہ کشمیر کی ایک حقیقت اور اس کے وجود کا اظہار ہوں گے اور دنیا کو ایک بار پھر اندازہ ہوگا کہ کشمیر نام سے جو یونین ٹیریٹری اس وقت موجود ہے وہ حقیقت میں ایک تاریخی تنازع کا دوسرا نام ہے اور یہ بات ارون دھتی رائے جیسے ثقہ دانشور عالمی ایوارڈ یافتہ مصنف، فلم ساز اور تاریخ کے طالب علم بھی تسلیم کرتے ہیں۔