پانی کے ساتھ ساتھ خوراک بھی انسانوں سمیت روئے ارض پر موجود پر تمام جانداروں کی محض بنیادی نہیں بلکہ انتہائی بنیادی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی کی بقا ممکن نہیں۔ ہمیں محض زندہ رہنے کے لیے بلکہ توانا رہنے کے لیے بھی کھانا پڑتا ہے۔ جو انسان اچھی طرح جینا چاہتا ہے اُسے اچھی طرح کھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
کیا انسان خوراک کے معاملے میں سنجیدہ ہے؟ اس سوال کا جواب پورے یقین سے یوں دیا جاسکتا ہے کہ انسان نے ابھی تک اس معاملے میں وہ سنجیدگی نہیں اپنائی جو لازم ہے۔ ہر دور کے انسان نے اپنی اس انتہائی بنیادی ضرورت کو لاپروائی کی نذر کیا ہے اور ایسا کرنے کا خمیازہ بھی بھگتا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں انسانوں کی واضح اکثریت کھانے پینے کی اشیا کو برتنے کے حوالے سے شرم ناک حد تک لاپروا ہے جس کے نتیجے میں ضیاع کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں یا کیا آپ یقین کریں گے کہ آج دنیا بھر میں جتنی خوراک اُگائی یا پیدا کی جاتی ہے اُس کا کم و بیش ایک تہائی یعنی 33 فی صد سے زائد ضایع ہو جاتا ہے؟ اِس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ بعض اشیا بہت جلد خراب ہو جانے والی ہوتی ہیں۔ بعض پھل اور دیکھتے ہی دیکھتے خرابی کی طرف لُڑھک جاتی ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ انسان اناج، پھل، سبزی، گوشت اور دیگر اشیائے خور و نوش کو محفوظ رکھنے اور ضیاع سے بچانے کے معاملے میں عمومی سطح پر لاپروا واقع ہوا ہے۔ سوال اشیائے خور و نوش کے صرف ضیاع کا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ جو خوراک ہم ضائع کرتے ہیں اُن کا ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں میں حصہ 8 سے 10 فی صد تک ہے۔ یعنی ایک طرف تو انسان خوراک ضایع کر رہا ہے اور دوسری طرف اپنے اس عمل سے ماحول کو بھی نقصان سے دوچار کر رہا ہے۔ شدید تعفن سے بہت سی وبائیں جنم لیتی ہیں۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھویں اور فضلے سے پہلے ہی ماحول کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اگر دنیا بھر میں ضایع کی جانے والی خوراک کو جمع کرکے ایک ملک کا درجہ دیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں اور دیگر مادوں کے اخراج کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس معاملے میں ضایع شدہ خوراک سے آگے صرف چین اور امریکا ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اشیائے خور و نوش ضایع کرنے میں کس کا کتنا حصہ ہے۔ 2019 کو بنیادی سال بناکر بات کی جائے تو صرف ایک سال میں ضایع شدہ اشیائے خور و نوش کا حجم 93 کروڑ 10 لاکھ میٹرک ٹن تھا۔ اس میں سے گھروں کا حصہ 61 فی صد، فوڈ سروس سیکٹر کا حصہ 26 فی صد اور خوردہ فروشی کے شعبے کا حصہ 13 فی صد تھا۔ ترقی یافتہ ممالک اور خطوں میں خوراک کے ضیاع کا تناسب یا حجم خاصا کم ہے۔ اشیائے خور و نوش کو ضیاع سے مکمل طور پر بچانا ترقی یافتہ ممالک میں بھی ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔ یورپی یونین میں ہر سال تقریباً 8 کروڑ 80 لاکھ میٹرک ٹن اشیائے خور و نوش ضایع ہو جاتی ہیں۔ یعنی فی کس 174 کلو گرام کہیے۔ اس ضایع شدہ خوراک کی مجموعی مالیت 143 ارب یورو ہے۔ اس ضیاع سے 17 کروڑ میٹرک ٹن کاربن ڈائی اوکسائڈ پیدا ہوتی ہے۔
ضایع ہونے والی خوراک سپلائی چین سے جس قدر جُڑی ہوئی ہوتی ہے اُسی قدر زیادہ کچرا پیدا ہوتا ہے اور کاربن ڈائی اوکسائڈ کے پیدا ہونے کا احتمال بھی اُسی قدر بڑھ جاتا ہے۔ مختلف اشیائے خور و نوش کے ضیاع کے ماحول پر اثرات مختلف ہیں۔ ضایع ہو جانے والے گوشت کا تناسب اناج اور سبزیوں کے مقابلے میں خاصا کم ہے۔ سبزیاں تیزی سے خراب ہوتی ہیں۔ اُنہیں محفوظ رکھنے پر خاص توجہ دینا پڑتی ہے۔ خیر، اناج اور سبزیاں اُگانے پر زیادہ وقت لگتا ہے نہ وسائل۔ گوشت کی پیداوار مہنگی بھی ہوتی ہے اور وقت بھی بہت کھاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گوشت کا ضیاع زیادہ نقصان دہ ہے اور اِس سے بچنا چاہیے۔ گوشت کو پکانا بھی خاصا مہنگا پڑتا ہے اور وقت بھی بہت لگتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں گوشت کو خوراک کا حصہ بنانے سے نمایاں حد تک گریز پر زور دیا جارہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں جتنی بھی خوراک ضایع ہو رہی ہے اگر اُسے ضیاع سے بچانا ممکن ہو تو پس ماندہ ممالک میں کم و بیش 87 کروڑ افراد کے لیے خوراک کا مسئلہ بخوبی حل کیا جاسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں اول تو ایسی خوراک تیار کرنے پر توجہ دی جارہی ہے جو تیزی سے خراب نہ ہو اور دوم خوراک کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے حوالے سے تحقیق کی جارہی ہے۔
پس ماندہ ممالک میں خوراک کو ضیاع سے بچانا انتہائی دشوار ہے۔ اِن ممالک میں سبزیوں اور پھلوں کی کم و بیش نصف مقدار ضایع ہو جاتی ہے۔ طبی ماہرین ایک طرف تو گوشت کا استعمال کم کرکے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بڑھانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ صحتِ عامہ کے مسائل گھٹیں اور دوسری طرف وہ سبزیوں کو محفوظ کرنے کے بجائے یومیہ بنیاد پر خرید کر کھانے پر زور دے رہے ہیں۔ اس صورت میں لوگ تازہ سبزیاں کھائیں گے اور وہ گھر میں پڑے پڑے خرابی سے دوچار بھی نہیں ہوں گی۔
(یہ مضمون دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام پر شایع ہوا ہے اور اِس کی تیاری کے لیے اعداد و شمار اور حقائق اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے کام کرنے والے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ارتھ ڈاٹ او آر جی کے فیوژنز پروجیکٹ کی رپورٹس سے مدد لی گئی ہے۔)