اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں میں قربانی کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ اگرچہ اِدھر (ہندوستان میں) کچھ عرصے سے اس سے روکنے کی کوشش کی جانے لگی ہے اور قربانی کے بجائے رفاہی کاموں کی انجام دہی کی فضیلتیں بیان کی جانے لگی ہیں، لیکن عام مسلمانوں پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا ہے اور وہ پہلے کی طرح پورے جوش و جذبے کے ساتھ قربانی کا عمل انجام دیتے ہیں، لیکن یہ دیکھ کر تشویش ہوتی ہے کہ قربانی ایک سماجی رسم کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے اور قربانی کرنے والوں کی توجہ اس کی روح کی طرف کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ قربانی کے سلسلے میں چند قابلِ توجہ امور کا تذکرہ کردیا جائے:
1۔ قربانی ایک خالص عبادت ہے اور عبادت کے لیے ضروری ہے کہ اسے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے انجام دیا جائے اور دکھاوے سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے، لیکن سوشل میڈیا نے دیگر اعمال کے ساتھ قربانی کا دکھاوا کرنے کا بھی پورا سامان فراہم کردیا ہے۔ کیا ہم نماز ادا کرتے ہیں تو اس کا فوٹو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں؟ کیا ہم تہجد پڑھتے ہیں تو اس کی خبر دوسروں کو دیتے ہیں؟ کیا ہم کسی کو صدقہ، خیرات یا زکوٰۃ دیتے ہیں تو اس کا اعلانِ عام کرتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ لیکن قربانی کی تشہیر ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ قربانی کا جانور خریدتے ہی اس کا فوٹو سوشل میڈیا کی زینت بنانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پھر کچھ کچھ وقفے سے ہر زاویے سے اس کا فوٹو کھینچا جاتا ہے، حتیٰ کہ ذبح کرتے وقت بھی فوٹو کھینچنے سے گریز نہیں کیا جاتا اور اسے فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے احباب کو بھیجا جاتا ہے۔
2۔ احادیث میں اگرچہ جانور کو ذبح کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی اس کے آداب بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان سے اسلامی شریعت کی حسّاسیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً جانور کو اس طرح کھینچ کر نہ لے جایا جائے کہ وہ اذیت محسوس کرے، چنانچہ جانور کا کان پکڑ کر کھینچنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے چھری خوب تیز کرلی جائے، تاکہ ذبح کرتے وقت جانور کم سے کم اذیت محسوس کرے۔ چھری کو جانور کے سامنے تیز نہ کیا جائے۔ ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کیا جائے۔ جانور کے ٹھنڈا ہونے سے قبل اس کی کھال اتارنا نہ شروع کیا جائے۔ لیکن عموماً جن مقامات پر اجتماعی قربانیاں کی جاتی ہیں۔ کسی احاطے میں یکے بعد دیگرے جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے، وہاں ان آداب کی رعایت نہیں کی جاتی۔ کوئی اوٹ نہیں رکھی جاتی ہے اور ایک جانور کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کیا جاتا ہے۔ جلدی کی وجہ سے جانور کو ذبح کرتے ہی اس کی کھال اتاری جانے لگتی ہے۔ ضروری ہے کہ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں جن سے ذبح کے اسلامی آداب پر پورے طور سے عمل ہوسکے۔
3۔ قربانی کا گوشت خود کھانے کی اجازت دی گئی ہے اور کچھ گوشت تقسیم کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ کے رسولؐ قربانی کرتے تھے تو اس کا تھوڑا سا حصہ رکھ کر باقی تقسیم کروا دیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ سے مروی ہے کہ وہ تین حصے کرتے تھے: ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا حصہ احباب اور جان پہچان کے لوگوں کے لیے اور تیسرا حصہ فقرا کے لیے۔ آج کل لوگ قربانی میں چھوٹا جانور (بکرا، بھیڑ، دنبہ) بھی کرتے ہیں اور بڑا جانور (بھینس وغیرہ) بھی۔ بعض لوگ ستم یہ کرتے ہیں کہ چھوٹے جانور کا پورا گوشت اپنے کھانے کے لیے فریزر میں اسٹور کر لیتے ہیں اور بڑے جانور کا گوشت فقرا میں تقسیم کراتے ہیں۔ یہ رویّہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ فقرا کو بھی اس کی خبر ہوگئی ہے۔ چنانچہ کسی کو دیا جائے تو وہ لینے سے پہلے دریافت کرتا ہے کہ یہ چھوٹے کا گوشت ہے یا بڑے کا؟ اگر بڑے کا بتایا جائے تو بسا اوقات اسے لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عید الاضحٰی چھوٹے کا گوشت کھانے کا موسم ہے۔ یہ رویّہ پسندیدہ نہیں ہے۔ جو ہم کھائیں اسی میں غریبوں کا بھی حصہ لگائیں۔
4۔ عید الاضحٰی کے موقع پر مسلم بستیاں گندگیوں کا بدترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔ عید گزرنے کے کئی روز بعد تک جگہ جگہ جانوروں کی اوجھ، کھال، ہڈیوں، فضلات اور زائد چیزوں کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ بدبو کی وجہ سے سڑکوں اور عام راستوں سے لوگوں کا گزرنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یہ عمل اس امت کا ہوتا ہے جس کے پیغمبر نے نظافت کی تاکید کی ہے اور طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ (مسلم:223) ایسی مخلوط بستیاں جہاں دیگر مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں، وہاں تو مسلمانوں کو اور بھی احتیاط کرنی چاہیے اور اپنے کسی عمل سے پڑوسیوں کی ایذا رسانی سے بچنا چاہیے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’گھروں کے اطراف کو صاف ستھرا رکھو اور یہود کی طرح نہ ہوجاؤ‘‘۔ ( ترمذی :2799) عہدِ نبوی میں یہود صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنے کے معاملے میں مشہور تھے۔ اب زمانہ آگیا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو شہرت حاصل ہوگئی ہے، چنانچہ دیگر مذاہب کے لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ ’’صفائی ستھرائی کا خیال رکھو اور مسلمانوں کی طرح نہ ہوجاؤ‘‘۔
کیا ہم قربانی کے موقع پر صفائی ستھرائی کا نمونہ نہیں پیش کرسکتے؟ عموماً سْستی اور کاہلی کی وجہ سے لاپروائی برتی جاتی ہے اور جانوروں کے فضلات اِدھر اْدھر پھینک دیے جاتے ہیں۔ تھوڑی توجہ دی جائے تو گھروں اور ان کے اطراف کو صاف ستھرا رکھا جا سکتا ہے۔
قربانی رسم نہیں، بلکہ عبادت ہے۔ اسے عبادت سمجھ کر اس کی شرائط اور آداب ملحوظ رکھتے ہوئے انجام دیا جائے تو اس کا اجر و ثواب ملے گا اور اللہ کے بندوں تک ایک اعلیٰ اور مبثت پیغام بھی جائے گا۔ لیکن اگر اس کی ادائیگی محض ایک رسم کے طور پر پھوہڑ پن اور بے تکے انداز میں کی جائے گی تو اس سے اللہ کے بندوں کو کوئی پیغام نہیں ملے گا، بلکہ وہ اسے وحشیانہ اور ضرر رساں عمل سمجھیں گے۔
اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم ایک مقدّس اور روحانی عمل کو وحشیانہ اور ناشائشتہ عمل بناکر پیش کریں۔