قربانی کا حاصل

270

عیدالاضحی میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور اپنے جانوروں کی قربانی کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار صحابہ کرامؓ نے اسی کے بارے میں نبیؐ سے پوچھا: یارسولؐ اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ الصلوٰ والسلام کی سنت ہے۔ (ابن ماجہ، ابواب الاضحی)
بے شک ہر سال مسلمانانِ عالم کروڑوں جانوروں کی قربانی کرکے جاں نثاری اور فدائیت کے اس بے نظیر واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں جو آج سے تقریباً سوا پانچ ہزار سال پہلے عرب کی سرزمین میں اللہ کے گھر کے پاس پیش آیا تھا… کیسا رقت انگیز اور ایمان افروز ہوگا وہ منظر جب ایک بوڑھے اور شفیق باپ نے اپنے نوخیز لختِ جگر سے کہا: ’’پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری کیا راے ہے؟‘‘ اور لائق فرزند نے بے تامل کہا: ’’اباجان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ (الصافات: 102) اور پھر اخلاص و وفا کے اس پیکر نے خوشی خوشی اپنی معصوم گردن زمین پر اس لیے ڈال دی کہ اللہ کی رضا اور تعمیلِ حکم کے لیے اس پر تیز چھری پھیر دی جائے، اور ایک ضعیف اور رحم دل باپ نے اپنے محبوب لختِ جگر کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر اس کی معصوم گردن پر اس لیے تیز چھری پھیر

دینے کا ارادہ کرلیا کہ اس کے رب کی مرضی اور حکم یہی ہے۔
اطاعت و فرماں برداری کا یہ بے نظیر منظر دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور ندا آئی: ’’اور ہم نے انھیں ندا دی کہ اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمایش تھی‘‘۔ (الصافات: 104-106) اس وقت ایک فرشتے نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنے ایک مینڈھا پیش کیا کہ وہ اس کے گلے پر چھری پھیر کر جاں نثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کریں، اور اللہ نے رہتی دنیا تک یہ سنت جاری کر دی کہ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اسی دن جانوروں کے گلے پر چھری پھیر کر اس بے نظیر قربانی کی یاد تازہ کریں۔
’’اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس (نوعمر بچے) کو چھڑا لیا‘‘۔ (الصافات: 107)

بڑی قربانی سے مراد قربانی کی یہی سنت ہے جس کا اہتمام ہر سال اسی دن مسلمانانِ عالم دنیا کے گوشے گوشے میں کرتے ہیں اور لاکھوں مسلمان تو مکہ کی اس سرزمین پر اس سنت کو تازہ کرتے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نہ تو اس قربانی کا یکایک مطالبہ کیا گیا تھا اور نہ وہ یکایک اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہوگئے تھے بلکہ ان کی پوری زندگی ہی قربانیوں کی یادگار ہے۔ حیاتِ ابراہیمؑ کو اگر قربانی کی تفسیر کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ اللہ کی راہ میں قربانی دینے کا مفہوم اگر آپ جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو پڑھیں۔ اللہ کی خاطر آپ ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوئے، ان کی دولت اور آسایش سے محروم ہوئے، خاندان اور برادری کی حمایت اور سہارے سے محروم ہوئے، خاندانی گدی سے محروم ہوئے، وطنِ عزیز سے نکلنا پڑا۔ اللہ ہی کی خاطر آتشِ نمرود میں بے خطر کود کر آپ نے اللہ کے حضور اپنی جان نذر کر دی، اور اللہ ہی کی رضا اور اطاعت میں آپ نے اپنی محبوب بیوی اور اکلوتے بچے کو ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں لاکر ڈال دیا، اور جب یہی بچہ ذرا سنِ شعور کو پہنچ کر کسی لائق ہوا تو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے پر چھری پھیر کر دنیا کے ہر سہارے اور تعلق سے کٹ جائو اور مسلم حنیف بن کر اسلام کامل کی تصویر پیش کرو: ’’جب ان سے ان کے رب نے کہا: مسلم ہوجا تو اس نے بے تامل کہا: میں رب العالمین کا مسلم ہوگیا‘‘۔ (البقرہ: 131)

اسلام کے معنی ہیں: کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور سچی وفاداری۔ قربانی کا یہ بے نظیر عمل وہی کرسکتا ہے جو واقعتا اپنی پوری شخصیت اور پوری زندگی میں اللہ کا مکمل اطاعت گزار ہو، جو زندگی کے ہر معاملے میں اس کا وفادار ہو اور جس نے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کر دیا ہو۔ اگر آپ کی زندگی گواہی نہیں دے رہی ہے کہ آپ اللہ کے مسلم اور وفادار ہیں اور آپ نے اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے نہیں کی ہے تو آپ محض چند جانوروں کا خون بہا کر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ نہیں کرسکتے، اور اس عہد میں پورے نہیں اْتر سکتے جو قربانی کرتے وقت آپ اپنے اللہ سے کرتے ہیں۔
دنیا کے مسلمان اس دن جانوروں کا خون بہا کر اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اے رب العالمین! ہم تیرے مسلم ہیں۔ تیری کامل اطاعت ہی ہمارا شیوہ ہے۔ ہم تجھ سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور اپنے بزرگوار اسماعیل کی طرح تیرے حضور اپنی گردن پیش کرتے ہیں۔ پروردگار تو نے ہی قربانی کی یہ سنت جاری کر کے اسماعیل علیہ السلام کی گردن چھڑائی تھی۔ ہم جانوروں کا خون بہا کر اپنی گردن چھڑاتے ہیں مگر ہمارا سب کچھ تیرا ہی ہے، تیرا اشارہ ہوگا تو ہم تیرے دین کی خاطر اپنی گردن کٹانے اور اپنا خون بہانے سے ہرگز دریغ نہ کریں گے۔ ہم تیرے ہیں اور ہمارا سب کچھ تیرا ہے۔ ہم تیرے وفادار اور جاں نثار بندے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے پیرو ہیں اور انھی کی عقیدت سے سرشار ہیں۔ قربانی کرتے وقت آپ جو دعا پڑھتے ہیں وہ دراصل وفاداری اور جاں نثاری کے انھی جذبات کا اظہار ہے:

اِنِّی وَجَّھتْ وَجھِیَ لِلَّذِی… ’’میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رْخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں۔ خدایا! یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے‘‘۔
پھر سپردگی کی عجیب کیفیت کے ساتھ جانور کے گلے پر تیز چھری پھیرتے ہوئے آپ کہتے ہیں:

بِسمِ اللہِ اَللہْ اَکبَر…’’اللہ کے نام سے اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ! تو اس قربانی کو میری جانب سے قبول فرما جس طرح تو نے اپنے دوست ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب محمدؐ کی قربانی قبول فرمائی۔ دونوں پر درود و سلام ہو‘‘۔
دراصل اسی واقعے کو تازہ کرنا اور انھی جذبات کو دل و دماغ پر حاوی کرنا قربانی کی روح اور اس کا مقصد ہے۔ اگر یہ جذبات اور ارادے نہ ہوں، اللہ کی راہ میں قربانی کی آرزو اور خواہش نہ ہو، اللہ کی کامل اطاعت اور سب کچھ اس کے حوالے کردینے کا عزم اور حوصلہ نہ ہو، تو محض جانوروں کا خون بہانا، گوشت کھانا اور تقسیم کرنا قربانی نہیں ہے، بلکہ گوشت کی ایک تقریب ہے جو ہر سال آپ منا لیا کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کردیا۔ اللہ کو نہ جانوروں کے خون کی ضرورت ہے نہ گوشت کی۔ اس کو تو اخلاص و وفا اور تقویٰ و جاں نثاری کے وہ جذبات مطلوب ہیں جو آپ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خون، اسے تو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (الحج: 37)

یہی تقویٰ اور اطاعت و فرماں برداری کا جو ہر قربانی کی روح ہے اور اللہ کے یہاں صرف وہی قربانی شرفِ قبول پاتی ہے جو متقی لوگ اطاعت اور فرماں برداری و جاں نثاری کے جذبات کے ساتھ پیش کرتے ہیں: ’’اور انھیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا: ’’اللہ تو متقیوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے‘‘۔ (المائدہ: 27) یعنی تیرے دْنبے کو اگر آسمانی آگ نے نہیں جلایا اور اللہ نے اسے قبول نہیں کیا تو اس میں میرا کیا قصور ہے جو مجھے قتل کی دھمکی دے رہا ہے۔ اپنی اصطلاح کی فکر کر، تیرے اندر ہی کھوٹ ہے، اللہ تو صرف متقی لوگوں کی قربانی ہی قبول کرتا ہے۔

تقویٰ اور اخلاص اور وفاداری و جاں نثاری کے یہ جذبات اس طرح پیدا نہیں ہوتے کہ آپ گاہے گاہے اللہ کو یاد کرلیں اور کچھ ایسے مخصوص اعمال کبھی کبھی کرلیں جو اللہ سے تعلق اور اس کی راہ میں قربانی کی علامات ہیں اور پھر اپنے افکار و خیالات، احساسات و جذبات، اخلاق و معاملات اور اطاعت وفاداری میں آپ آزاد ہیں کہ جو چاہیں سوچیں، جو چاہیں ارادے رکھیں، جو چاہیں کریں اور جس کی اطاعت و فرماں برداری کا چاہیں دم بھریں۔ اللہ سے یہ عہد کرنے کے بعد کہ ’’میں ربّ العالمین کا مسلم ہوں‘‘، اس کی کیا گنجایش ہے کہ ہم دوسرے ازموں اور طریقوں کو اطاعت کے لیے اپنائیں، یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دے کر اپنے لیے جائز اور قابلِ قبول قراردیں اور اپنے من مانے طریقوں کی پیروی کریں۔ کیا جانوروں کا فدیہ دے کر ہم نے اپنی جانوں کو اس لیے چھڑایا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور اپنی قوت و صلاحیت کو جہاں چاہیں کھپائیں اور قربان کریں اور اللہ سے یہ اْمید کریں کہ وہ ان جانوروں کے گوشت اور خون کو قبول کرلے گا!

اللہ کا دین آپ کی پوری شخصیت اور آپ کی پوری زندگی چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ اس کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کا جوڑ نہ لگائیں۔ جن برگزیدہ بندوں کی سنت کو آپ تازہ کر رہے ہیں، انھیں دیکھیں کہ وہ کس طرح زندگی کے ہر معاملے میں مسلم حنیف تھے۔ اللہ سے اسلام اور بندگی کا عہد کرنے والے ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسلام کی کیا تصویر پیش کرتی ہے، ان کی زندگی کو آپ بار بار پڑھیں اور ذی الحجہ کے پہلے 10 ایام میں خصوصی اہتمام کے ساتھ پڑھیں اور اپنے دل و دماغ اور شخصیت اور معاشرے پر اْن جذبات اور کیفیات کو طاری کرنے کی کوشش کریں جو اس پاکیزہ زندگی میں آپ کو نظر آئیں، ورنہ قربانی کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ گوشت کھانے اور کھلانے کے لیے آپ ایک جشن منارہے ہیں۔