کراچی (رپورٹ / محمد علی فاروق) خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کی بنیاد‘ مساوات اور صبر و تحمل کا درس دیتا ہے‘ رنگ ونسل ،مال ومتاع کے بجائے فضیلت کا معیار صرف تقویٰ کو قرار دیا گیا‘ نماز، روزہ ،حج، زکوٰۃ کی ادائیگی اور عورتوں و غلاموںکے حقوق کی وصیت کی گئی‘حضور ؐ نے سود کاخاتمہ کیا ‘قرض وامانتوں کی واپسی،وعدوں کی پاسداری کا حکم دیا‘ قتل وغارت سے منع فرمایا۔ ان خیا لات کا اظہار فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولانا عطا اللہ عبدالرؤف، مجد د الف ثانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے چیئرمین مولانا ذاکر احمد نقشبندی اور شیخ الحدیث جامعہ ستاریہ کراچی مولانا عبدالعظیم حسن زئی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کا اوّلین اور مثالی منشور ہے؟‘‘ مولانا عطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ حضور اکرمؐنے کیونکہ ایک ہی حج ادا فرمایا تھا جس کے بعد آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے تھے اس لیے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے‘ حج کے موقع پر آپ نے جو خطبہ حج ارشاد فرمایا اس میں سب سے پہلی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ لوگو ں کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے کا درس دیا گیا ، ظاہر ہے‘ یہ پیغام آپؐ کے توسط سے ملا تو آپ کی رسالت پر ایمان لانے کا درس بھی دیا گیا‘ جب بندہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کر لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی فکر ازخود اس سے دامن گیر ہوجاتی ہے‘ اسی طرح اگرچہ حج کے موقع پر یہ خطبہ مختصر اور چھوٹا ہے لیکن آپؐکی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ گفتگو میں ایسے کلمات ادا فرماتے تھے جو الفاظ کے اعتبار سے مختصر مگر معنی کے اعتبار سے وسیع ہوا کرتے تھے‘ آپ نے انسانوں کے درمیان نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا،فرمایا کہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں‘ آدم مٹی سے بنے تھے، کسی کو کسی پر فضیلت خاندان، نسل، نسب، علاقے اور وطن کی وجہ سے حاصل نہیں‘ یوں پوری عالمی برادری کو ایک لڑی میں پرو دیا‘ سب کو یہ بتا دیا کہ تمسب ایک ماں باپ کی اولاد ہو لہٰذا ایک دوسرے کی جان، مال، عزت، آبرو کی حفاظت کرو اور معاشرے میں کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو‘ انسانی مساوات کے اس منشور پر عمل کیا جائے تو پوری دنیا آج امن کا گہوارہ بن سکتی ہے‘ اسی طرح آپؐ نے عورتوں کے حقوق میں وصیت کی اور فرمایا کہ عورتوں کے حقوق ادا کرو جبکہ وہ تمہارے حقوق ادا کر رہی ہوں‘یوں عورتوں کے حقوق کا تحفظ کر دیا گیا‘ اسی طرح غلاموں کے بارے میں بتایا گیا کہ ان پر سختی نہ کرو‘ ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو اور جو خود کھائو انہیں بھی وہی کھلائو‘ جو خود پہنو انہیں بھی پہنائو اس طرح آپ نے تعین کر دیا کہ جو غلام ہیں‘ وہ انسان ہیں ان کی خوراک، پوشاک، آ رام و سکون کا خیال رکھا جائے‘ پچھلے جتنے دعویتھے‘ ان سب کو ختم کر دیا‘ یو ں نسل در نسل چلنے والے لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ ہوا‘ معاشرے میں امن قائم کیا گیا‘ آپ ؐنے سود کو مستقل بند کر دیا ‘ ہاں جس کسی شخص کا اصل مال ہے وہ اسے لوٹا دیا جائے گا ‘ لیکن سود ادا نہیں کیا جائے گا‘ اگر اس پر عمل ہوجائے تو پوری دنیا میں غربت کا خاتمہ ہوجائے گا‘ آج ہمارا ملک بھی اسی سودی معیشت میں جکڑا ہوا ہے‘ ابھی بجٹ آیا ہے سب جانتے ہیں کہ اس کا تقریباً 50 فیصد سے زاید حصہ سود کی ادائیگی میںجائے گا ، جس ملک کی آدھی آمدن سود میں جا رہی ہو ،وہ ملک ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ہے۔ حضور اکرم ؐ نے امانتیں واپس کرنے کا حکم دیا ہے‘ وعدوں کی پاسداری کا حکم دیا ہے‘ مختصراً یہ کہ آپؐنے فرمایاکہ میں تمہارے درمیان 2 چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک کتاب اور دوسری میری سنت ، جب تک تم انہیں تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے‘ یہ اس خطبے میں ایسا سنہری پیغام ہے کہ آج بھی دنیا امن کا گہوار بن سکتی ہے ، انسانی تاریخ میں ایسا بامعنی اور نتیجہ خیز پیغام دیکھنے کو نہیں ملتا یہ خطبہ اپنی مثال آپ ہے‘ آپ ؐپر کروڑوں درود وسلام ہوں آپ کی محنت کے نتیجے میں یہ دین ہم تک پہنچ سکا ۔ مولانا ذاکر احمد نقشبندی نے کہا کہ خطبہ حجۃ الوداع تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلا منشور ہونے کا اعزاز رکھتاہے‘ خطبہ حجۃ الوداع میں ذاتی اغراض، نسلی و قومی مفاد کے تحت کسی گروہ کی حمایت کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا‘ نبی کریم ؐکے گرد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود تھا۔9 ذوالحجہ 10ھ کو آپؐنے عرفات کے میدان میں تمام مسلمانوں سے خطاب فرمایا۔ یہ خطبہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے اور اسلام کے سماجی، سیاسی اور تمدنی اصولوں کا جامع مسودہ ہے‘ خطبے میں آپؐ نے فرمایا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم اسی کی حمد کرتے ہیں‘ اسی سے مدد چاہتے ہیں‘ اسی سے معافی مانگتے ہیں‘ اسی کے پاس توبہ کرتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ ہی کے ہاں اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ مانگتے ہیں‘ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے تو پھر کوئی اسے بھٹکا نہیں سکتا اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو اس کو کوئی راہ ہدایت نہیں دکھا سکتا، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہوں اور میں اسی سے ابتدا کرتا ہوں جو بھلائی ہے۔ لوگو! میری باتیں سن لو، مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔ ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پائوں کے نیچے ہیں‘ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔ خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے، لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے، جیسا کہ تم آج کے دن کی، اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو‘ جاہلیت کے قتل کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ آپؐکے چچیرے بھائی ربیعہ بن حارث عبدالمطلب کے بیٹے کا ہے۔ جس کے بیٹے عامر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا‘ اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے، ہاں تمہارا سرمایہ مل جائے گا، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے، اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔ لوگو! تمہاری اس سرزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کیے جانے پر خوش ہے اس لیے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔ اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد اسی دن سے 12 ہے جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں‘ ان میں سے 4 حرمت والے ہیں، 3 (ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم) لگا تار ہیں اور رجب تنہا ہے، لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو، خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسی مار مارو جو نمودار نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلائو ، اچھی طرح پہنائو‘ تمہارے غلام تمہارے ہیں جو خود کھائو ان کو کھلائو اور جو خود پہنو وہی ان کو پہنائو، خدا نے وراثت میں ہر حقدار کو اس کا حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث جس کے بستر پر پیدا ہو، زنا کار کے لیے پتھر اور اس کا حساب خدا کے ذمہ ہے‘ عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں، قرض ادا کیا جائے، عطیہ لوٹا دیا جائے، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے، مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے، باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں، اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے کر چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو، لوگو! نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے، خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز ادا کرو، سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو، خانہ خدا کا حج بجا لائو، مال کی زکوٰۃ خوشی خوشی ادا کرو‘ اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے، ’’اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت‘‘ اس جامع خطبہ کے بعد نبی کریمؐ نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، لوگو! قیامت کے دن خدا میری نسبت پوچھے گا تو کیا جواب دو گے؟ صحابہ نے عرض کی کہ ہم کہیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا، ’’اے خدا تو گواہ رہنا، اے خدا تو گواہ رہنا، اے خدا تو گواہ رہنا‘‘ اور اس کے بعد آپ نے ہدایت فرمائی کہ جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔ نبی کریمؐ نے خطبہ حجۃ الوداع میں تکریم انسانیت اور احترام انسانیت کا درس دیا ہے کہ اسلام امن، محبت، تحمل، برداشت کی تعلیم دیتا ہے‘ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام سکھاتا ہے اور یہی منشور انسانی یعنی خطبہ حجۃ الوداع کا نچوڑ ہے۔ مولانا عبدالعظیم حسن زئی نے کہا کہ خطبہ حجۃ الوداع کو بجا طور پر انسانی حقوق کا اولین منشورکہا جا سکتا ہے اس لیے کہ جس دور میں ہرطرف ظلم وجور کا دور دورہ تھا خاص کر کمزورکو جینے کے حق سے ہی محروم کیا گیا تھا اور عورتوں سے تو جینے کا حق تک چھین لیا گیا تھا ایسے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ انسانیت کے لیے ایک اعلیٰ منشورکی صورت میں سامنے آئے جب آپ نے فرمایا کہ’’ اے لوگو! بے شک تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے‘‘ اس خطبے کے بعد سے ہی دنیا انسانی حقوق سے روشناس ہوئی جس میں انسانی جان و مال، عزت وآبرو، اولاد کا تحفظ، امانت کی ادائیگی، قرض کی واپسی اور جائداد کے تحفظ کا حق، سود کے خاتمے کا تاریخی اعلان، پرامن زندگی اور بقائے باہمی کا حق، ملکیت، عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق، انسانی جان کا تحفظ، قصاص ودّیت، قانونی مساوات کا حق، نسلی تفاخر اور طبقاتی تقسیم کا خاتمہ، غلاموں اور عورتوں کے حقوق کا تاریخی اعلان کیا گیا۔