پاک بھارت تعلقات میں ’’نواز شریف ٹچ‘‘

356

نریندر مودی کی تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد یوں لگتا ہے کہ برہم مزاجِ یار کو خوش گوار بننے کی ذمے داری اس معاملے میں زمانہ شناس اور تجربہ کار میاں محمد نواز شریف نے سنبھال لی ہے یا انہیں اس معاملے میں آزمانے اور بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اسحاق ڈار کی صورت میں وزارت خارجہ کا منصب جس شخصیت کو دیا گیا وہ موجودہ سیاسی اور حکومتی لینڈ اسکیپ میں نوازشریف کے سب سے با اعتماد اور قریبی ساتھی ہیں۔ یوں تو پوری حکومت ہی ان کے گھر میں ہے وزارت خارجہ تو ان کی جیب میں ہے۔ میاں نوازشریف کا کمال یہ ہے کہ اپنے پورے سیاسی سفر میں کانگریس ہو یا بی جے پی ہر حکمران کے ساتھ ان کی خوب نبھتی رہی۔ کانگریس کے نرسہما رائو کے دور میں ایک ملاقات میں ان کے ایک جملے پر بڑی لے دے ہوتی رہی تھی کہ ’’نرسہما رائو صاحب بہت اچھے آدمی ہیں۔ اتحادی حکومت کے اندکمار گجرال ہوں یا کانگریس کے نرسہما رائو یہاں تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے واجپائی ہوں یا نریندر مودی میاں نوازشریف کی بھارت کے ہر ماڈل اور ہر سائز اور ہر ذہنی سوچ وساخت کے حامل حکمران کے ساتھ ذاتی طور پر تعلقات خوش گوار رہے۔ سوائے کانگریس کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دور کے جب میاں نوازشریف جلا وطن تھے اور جنرل پرویز مشرف خود ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان من موہن سنگھ سے کیمسٹری ملائے ہوئے رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوازشریف اس بات پر شرح ِ صدر رکھتے ہیں کہ پاکستان کی بہتری اور سلامتی ہر حال میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن میں ہے۔ اس لیے ان کا بھارت کے کسی حکمران سے اختلاف نہیں ہوتا۔

نوے کی دہائی میں جب پاکستان کی سیاست دوجماعتی ہونے کی طرف جا رہی تھی تو پوسٹ ضیاء الحق منظر میں بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم تھیں تو ان کی بھارت پالیسی کا پہلا لٹمس ٹیسٹ اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس بنی۔ اس کانفرنس میں نجانے اسلام آباد کے کسی کمشنر یا کار خاص کے کسی بندے نے کشمیر ہائوس کے بورڈ ہٹا دیے اور راجیو گاندھی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کشمیر پر مسٹر گاندھی کے ایک تبصرے پر فقط مسکرانے پر بے نظیر بھٹو کے خلاف ایک طوفان اُمڈ آیا۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ نہیں تھا بلکہ پرنٹ میڈیا کا دور تھا اور اس میں بے نظیر بھٹو کی بھارت پالیسی پر اس قدر طوفان اُٹھا دیا گیا کہ وہ دوبارہ اس بھارت پالیسی کی وادیٔ پُرخطر میں قدم رکھنے سے ہی پیچھے ہٹ گئیں۔ اس سے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد ’’تم نے ڈھاکہ دیا ہم نے کابل لیا، اب لینا ہے کشمیر ٹوٹے شملہ کی زنجیر‘‘ جیسے نعروں کے ساتھ پنجاب میں طاقت پکڑ چکا تھا۔ کشمیر ہائوس کے بورڈز اُتارنے کے بورڈز ہٹانے کے بیانیے کی دھند میں ایک شام صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو گھر بھیج دیا اور نئے انتخابات میں میاں نوازشریف وزیر اعظم بنے۔ ان کی کشمیر اور بھارت پالیسی کا پہلا لٹمس ٹیسٹ امان اللہ خان کا کنٹرول لائن توڑنے کی خاطر ہونے والا لانگ مارچ بنا۔ نوازشریف کو اقتدار سنبھالے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ وہ اس لانگ مارچ کے دوران ہی ایران گئے جہاں ان سے پوچھا گیا کہ کشمیری تو لانگ مارچ کرکے مکمل آزادی چاہتے ہیں ان کا جواب تھا اس پر بھی سوچا جا سکتاہے۔ یوں نوازشریف بھی عملی طور پر اسی لائن پر چل پڑے جس پر چلنے پر بے نظیر بھٹو معتوب قرارپائی تھیں۔ نواز شریف نے یہ طے کرلیا کہ وہ اس معاملے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے اور یوں اس کے بعد بھارت کا جو بھی حکمران آیا نوازشریف نے دوستی کا ہاتھ مسلسل بڑھائے رکھا۔ وہ اسے سیاست دانوں کی ڈومین سمجھ کر اپنی بات پر اڑے رہے۔ حتیٰ کہ جس بھارتیہ جنتا پارٹی کے عروج کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ تھا نوازشریف نے اس کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ اپنی کیمسٹری ملادی اور یوں بات اعلان ِ لاہور تک جا پہنچی۔ بعد میں کارگل کی جنگ نے تعلقات کی یہ ساری بساط ہی اُلٹ دی اور ایک نئے منظر کی تخلیق کا عمل شروع ہوا۔ ایک ڈیڑھ دہائی میں پاکستان کے مسائل کی نوعیت بدل گئی یہاں تک کہ میاں نوازشریف ایک بار پھر پاکستان میں طاقت کی راہداریوں میں پہنچ گئے۔ دوسری جانب نریندر مودی جیسے سخت گیر حکمران بھارت کے منظر پر اُبھر رہے تھے۔

میاںنوازشریف نے ماضی کے تجربے کی بنیاد پر دوستی کی ایسی کمند پھینکی کہ نریندر مودی بھی ان کے گرویدہ ہوگئے اور بات ایک ذاتی تعلق تک جا پہنچی۔ یہ تعلق شادی میں شرکت اور بین الاقوامی فورمز پر سرگوشیوں سے بھرپور تصویروں تک جا پہنچا اس وقت ملکی ہیئت مقتدرہ ایک سویلین حکمران کی ان ادائوں سے خاصی کبیدہ خاطر تھی اور نوازشریف اس انداز سے اسے مزید چڑانے کا کام لیتے تھے۔ طاقت کے کھیل میں اس آنکھ مچولی کی کہانی کو ڈان لیکس کے نام سے بھی سامنے آئی۔ یوں نوازشریف کا پورا سیاسی کیرئیر بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانے سے عبارت ہے۔ بے نظیر بھٹو کے برعکس ان کے اعتماد کا راز پنجاب سے تعلق اور جی ٹی روڈ پر حاصل مقبولیت تھی۔ اسی لیے وہ کبھی اس راہ سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس حوالے سے بے نظیر بھٹو کی محرومیاں دیدنی تھیں ایک قومی راہنما ہونے اور اپنی پارٹی کے بقول چاروں صوبوں کی زنجیر ہونے کے باوجودوہ خود کبھی کبھار تنگ آکر لاڑکانہ اور لاہور کے وزیر اعظم کے ساتھ دو مختلف اور متضاد رویوں پر برسرعام شکوہ کناں دکھائی دیتیں۔ مجھے اسلام آباد کی وہ شام یاد ہے جب میاں نوازشریف دوسری بار وزیر اعظم بنے تھے کہ سردار عبدالقیوم

خان نے میریٹ ہوٹل میں ان کے اعزاز میں دیے گئے ایک استقبالیہ میں اپنی تقریر کے دوران بہت باریک بات کی۔ سردار عبدالقیوم خان کا کہنا تھا کہ یہ نوازشریف ہی ہیں جو کشمیری النسل ہونے کی وجہ سے بھارت کو کوئی رعایت دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ میاں نوازشریف اس بات کی باریکی کو سمجھ پائے یا نہیں مگر زمانہ شناس کشمیری لیڈر بہت گہری بات کر گئے تھے۔ بعد میں واجپائی کا دورۂ لاہور بہت سی رعایتوں کا مظہر ہی تھا اور اگر کارگل کا باب نہ آتا تو شاید حالات کا دھارا مختلف انداز میں بہہ گیا ہوتا۔ اب مودی تیسری بار مانگے تانگے کی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ نریندر مودی نے شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر ایک روایتی پیغام بھیجا تھا اور اب شہباز شریف نے بھی ان کے وزیر اعظم بننے کا جواب دے دیا۔ شہباز شریف اور نریندرمودی کے اس نامہ وپیام میں حکومتوں اور ہمسایوں کے روایتی روکھے پھیکے پن کے سوا کچھ نہ تھا۔ بس ایک سندیسہ آیا تھا جس کے جواب میں اسی انداز کا ایک اور سندیسہ گیا۔ شاید یہی وجہ کہ شہباز شریف کے اس پیغام کو بھارتی میڈیا نے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ جس کے بعد میاںنواز شریف جن کے پاس کوئی حکومتی منصب نہیں خود میدان میں اُترے اور اس سرد مہری کو گرم جوشی اور اس روکھے پھیکے پن کو لذت اور رنگ وآہن دینے کے لیے انہوں نے نریندر مودی کو ٹویٹر کے ذریعے مبارکباد دینا ضروری سمجھا۔ میاں نواز شریف نے اپنے ملائمت بھرے پیغام میں لکھا ’’مودی جی آئیں ہم اس خطے میں نفرت کو امید سے بدل کریہاں بسنے والے دو ارب انسانوں کا سوچیں‘‘۔

جس کے جواب میں نریندر مودی نے لکھا: ’’میں نیک تمنائوں پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ انڈیا کے عوام ہمیشہ امن سلامتی اور ترقی پسند خیالات کے حامی رہے ہیں۔ ہماری ہمیشہ یہی ترجیح رہے گی کہ ہم اپنے لوگوں کی فلاح وبہبود اور سلامتی کو آگے بڑھائیں‘‘۔

خود بھارت کے سیاسی تجزیہ نگاروں نے نریندر مودی کے جواب کو نوازشریف کے پیغام کے متن کے برعکس تھوڑا کرخت اور گرم جوشی سے خالی قرار دیا ہے۔ اب اگر مضبوط وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد کمزور نریندر مودی کو جانچنے اور پرکھنے کی ذمے داری میاں نوازشریف نے اپنے سر لی تھی تو مودی کی طرف سے پاکستان کی ریاست کے لیے کوئی بدلا ہوا رویہ نظر نہیں آرہا۔ کمزور مودی کا انداز بھی رسی جل گئی پر بل نہیں گیا والا ہے۔ مودی کے مطالبات کچھ ایف اے ٹی ایف اور باقی ماندہ آئی ایم ایف پورے کروا رہا ہے تو مودی کو پاکستان سے برابری کی سطح پر بات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہ پاکستان کے مزید نیچے ہونے کی امید پر اس معاملے کو لٹکائے ہوئے ہیں اور شاید اس وقت کے انتظار میں ہیں جب ہمبن ٹوٹا کی بندگارہ پر اِترانے اور بھارت کو آنکھیں دکھانے والا سر ی لنکا معاشی بدحالی کے باعث بھارت سے بصد شکریہ چند ملین ڈالر کی امداد قبول کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ مودی کا یہ خواب پورا نہ ہونے دینا پاکستانیوں کا امتحان ہے۔