درآمد شدہ وزیر خزانہ کی بجٹ پیشی کے بعد پریس کانفرنس میں ایک صحافی ثنا اللہ خان کا سوال کہ کیا کسی میں جرأت ہوئی کہ کسی جرنیل یا محسن نقوی سے پوچھے اربوں روپے کی پراپرٹی کہاں سے آئی؟ صحافی نے کہا کہ بجٹ میں وزیراعظم ہائوس، قومی اسمبلی، سینیٹ کا بجٹ بڑھا دیا گیا ہے، میڈیا میں لوگوں کو کیش میں تنخواہیں ملتی ہیں کیا ایف بی آر نے آج تک پوچھا؟ دبئی میں جائدادیں بنانے والوں سے کسی نے کچھ پوچھا؟ صحافی نے درست کہا کہ آپ باتیں کرتے ہیں سسٹم ٹھیک ہی نہیں کرنا چاہتے، اپنے اخراجات کم نہیں کرنا چاہتے، لوگوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔ملک میں مسلسل بڑھتی مہنگائی اور ٹیکسوں کی بڑھتی شرح ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف حلال پر گزارہ کرنے والوں کا مسئلہ ہے۔ پٹرول، گیس، بجلی اور ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتے کرتے کہیں بھی نکل جائیں، کچھ لوگوں اور طبقوں کی صحت اور معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مہنگائی سے بے نیاز طبقوں میں مفت بجلی، گیس، پٹرول اور ان گنت سہولتوں سے لطف اندوز ہونے والے جج، جرنیل، حکمران، اسمبلی ارکان اور رشوت اور حرام کھانے والے سرکاری افسر شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مسائل حل کیوں نہیں ہوتے تو عرض یہ ہے کہ جس کا مسئلہ ہے اس کے پاس حل نہیں ہے اور جس کے اختیار میں حل ہے اس کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بجلی کی قیمت جس نے بڑھانی ہے اس کے لیے بجلی مفت ہے۔ جس جج کے پاس فریاد جانی ہے اس کی بجلی بھی مفت ہے۔ جس چور، ’’غریب‘‘ عوام کو احتجاج کرنا ہے اس کو کمپنی کے اہلکاروں نے بجلی کے حصول کے لیے کنڈے لگا دیے ہیں۔ غور کیجیے گا غریب قیمتیں بڑھنے پر کبھی احتجاج نہیں کرتا۔ یہ بد دیانت چور غریب اس وقت احتجاج کرتے ہیں جب بجلی بند کر دی جاتی ہے۔ اس لیے کہ مہنگی بجلی ان کا مسئلہ نہیں ہے۔
ایک دور تھا جب سال میں ایک دفعہ بجٹ بنتا تھا متعلقہ ادارے اسے پاس کرتے تھے۔ سال بھر کے لیے کم از کم یہ اطمینان تو ہو ہی جاتا تھا کہ اب سال سے پہلے مہنگائی کا کوئی طوفان نہیں آئے گا۔ عوام کے لیے سالانہ بجٹ کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اب صبح شام بجٹ آتا ہے۔ اب حلال رزق پر گزارہ کرنے والے کسی فرد کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سالانہ ششماہی یا ماہانہ تو دور کی بات ایک ہفتے کا بجٹ بھی بنا سکے۔ گیس، پٹرول، بجلی کی آئے روز بڑھنے والی قیمتیں کسی خوفناک عفریت سے کم نہیں۔ بنیادی ضرورت کی اشیاء کا حصول عام آدمی کے لیے خواب بنتا جا رہا ہے۔ جب بجٹ روز آتے ہوں، قیمتیں صبح و شام بڑھتی ہوں تو سالانہ بجٹ ایک معمول کی کارروائی کے سوا کیا رہ جاتا ہے۔ دردناک المناک اور شرمناک حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے غلام حکمرانوں کی حلال کھانے کے خواہش مند عام آدمی کے دکھ کو محسوس کرنے والی حس ہی مر گئی ہے۔
بجٹ کی تفصیلات سے صاف نظر آتا ہے کہ عوام کی فلاح حکومت کے مدنظر ہے ہی نہیں۔ وزیر خزانہ فرما چکے ہیں کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق بنایا گیا ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار سے اندازہ ہو رہا ہے کہ فارم 47 کی حکومت کو عوام کے جذبات اور مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ عام شہریوں کو بجٹ سے مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خصوصاً روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہو گا، جس کی وجہ سے مشکلات کا شکار عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں مختلف ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جس سے عوام اور کاروباری طبقے دونوں پر مالی بوجھ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
تعلیم، صحت، اور دیگر سماجی خدمات کے لیے ناکافی فنڈز مختص کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے متاثر ہوں گے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے مزید قرض لینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جس سے ملک پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھے گا۔ غریب طبقے کے لیے مراعات نہیں دی گئیں، جس کی وجہ سے سماجی عدم مساوات میں اضافہ ہوگا۔
نئے ٹیکسوں اور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے سرمایہ کاری میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔ لیکن باہر کے ملکوں میں جائدادیں بنانے والے بے حس حکمران کچھ سننے سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور لوگ بھی ظلم کے خلاف اٹھنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس لیے ظلم میں کمی آنے کی بھی کوئی امید نہیں۔