غزہ آپریشن کی بھاری قیمت

348

غزہ پر اسرائیل کی لشکر کشی نے ایک طرف تو مقبوضہ علاقوں میں انتہائی نوعیت کی تباہی کی راہ ہموار کی ہے اور دوسری طرف خود اسرائیلی معیشت بھی اِس کے شدید منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی ہے۔ غزہ آپریشن سے فلسطینیوں کی تباہی کے ساتھ خود اسرائیل کے لیے پیدا ہونے والی خرابیوں کی خبریں بھی تواتر سے آرہی ہیں۔

اسرائیل کو ایک عشرے کے دوران 400 ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا ہوگا۔ کاروبار کا ماحول خراب ہوچکا ہے اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے یہ ملک زیادہ پُرکشش نہیں رہا۔ خوف اِتنا ہے کہ بیرونی افرادی قوت بھی اسرائیل کا رُخ کرنے سے کترا رہی ہے۔ اسرائیل کو مختلف شعبوں میں ہنرمند و غیر ہنرمند بیرونی افرادی قوت کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت سمیت کئی ممالک کے محنت کش جاچکے ہیں اور واپسی کی نام نہیں لے رہے۔ عالمگیر سطح پر کام کرنے والی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اسرائیل کے لیے منفی رائے دے رہی ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں اور مہنگائی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔

غزہ آپریشن سے سیاسی سطح پر بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اسرائیل سمجھ رہا ہے کہ دفاع اور سلامتی کے محاذ پر اُسے چند ایک کامیابیاں ملی ہیں مگر قیمت اِتنی زیادہ ہے کہ اِن کامیابیوں کی اہمیت برائے نام رہ گئی ہے۔ سرِدست اسرائیل میں جو خرابیاں پائی جارہی ہیں وہ انتہائی نوعیت کی ہیں۔ معاشی ماہرین کو اندازہ ہے کہ کاروباری سرگرمیوں اور بالخصوص سرمایہ کاری کا ماحول بگڑنے سے مشکلات مزید بڑھیں گی۔ اسرائیلی حکومت نے جو کچھ غزہ میں کیا ہے وہ عام اسرائیلی کی نظر میں ناگزیر ہو تب بھی وہ معاشی بوجھ اٹھانے کے لیے تیار کبھی نہ ہوگا۔ غزہ کی صورتِ حال تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اسرائیلی وار مشین اپنی سی کوشش کرچکی ہے مگر حماس کو مکمل طور پر غیر موثر نہیں کیا جاسکا۔ لڑائی تھمنے کے آثار نہیں اور اسرائیلی معیشت کی الجھنیں بھی کسی مقام پر رُکنے سے گریزاں ہیں۔

عام اسرائیلیوں کو بھی اندازہ ہے کہ قیمتیں اس لیے بڑھ رہی ہیں کہ سرمایہ کار غیر یقینی صورتِ حال پسند نہیں کرتے اس لیے اسرائیل کا رُخ کرتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ غزہ کی لڑائی نے سیاسی بے یقینی اور بے چینی بھی بڑھائی ہے۔ ایسے میں اسرائیلی کرنسی شیکل کا بحران کی زد میں آنا فطری امر ہے۔ اُس کی قدر میں شدید گراوٹ آئی ہے۔ اس وقت 3.6 شیکل کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مساوی ہے جو اسرائیلی حکومت کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔

غزہ کی لڑائی نویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ سرمایہ کاروں کی مایوسی کا گراف مزید بلند ہوچکا ہے کیونکہ اب تک کسی جامع تصفیے کی راہ ہموار نہیں ہوئی۔ جن لوگوں نے شیکل کو ذخیرہ کر رکھا تھا وہ اُسے فروخت کر رہے ہیں۔ اُس کی گرتی ہوئی قدر اس بات کی غماز ہے کہ یورو یا ڈالر کی شکل میں درآمدات مہنگی ہوتی جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں جو بھی خرابی پیدا ہو رہی ہے وہ صارفین تک منتقل کی جارہی ہے۔

خیر، اسرائیل کی مشکلات صرف شیکل کی گرتی ہوئی قدر تک محدود نہیں۔ ایندھن بھی ڈالر میں خریدنا پڑتا ہے۔ ایندھن کی قیمت میں اضافے کا بوجھ بھی صارفین پر ڈالا جارہا ہے۔ مزید برآں، اسرائیلی خزانہ خالی ہوتا جارہا ہے، ہر چیز کی لاگت بڑھتی جارہی ہے۔ سالِ رواں کے آغاز سے پہلے تک ایندھن پر ٹیکس بہت حد تک کنٹرول میں تھا۔ غزہ کی لڑائی کے ہاتھوں رونما ہونے والے خسارے کے ہاتھوں مجبور ہوکر وزیر ِ خزانہ بیزالیل اِسماٹر ِچ نے ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی منسوخ کردی۔ ایندھن کی قیمت میں اضافے نے ہر اسرائیلی گھرانے کے ماہانہ اخراجات میں 200 شیکل تک کا اضافہ کردیا ہے۔ پیداوار اور نقل و حمل کی لاگت تیزی سے بڑھی ہے۔ یہی حال توانائی کا بھی ہے۔ یہ سارے اضافے صارفین یعنی عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

یہ تو ہوا عمومی معاشی سرگرمیوں کا حال۔ غزہ میں جاری لڑائی عام اسرائیلیوں کے لیے حکومت کی طرف سے بھی ایک تازیانہ لائی ہے۔ غزہ میں لڑائی جاری رکھنے کے لیے اسرائیلی فوج کے اخرجات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف آمدنی گھٹ رہی ہے اور دوسری طرف جنگی اخراجات بڑھ رہے ہیں جو شدید بجٹ خسارے کا باعث بن رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے 2025 کے لیے ویلیو ایڈیڈ ٹیکس کی حد 18 فی صد مقرر کی تھی مگر اب لگتا ہے کہ اس میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ ایسا ہوا تو پورے ملک میں اشیا و خدمات کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ یہ، ظاہر ہے، عام اسرائیلیوں کے لیے اضافی بوجھ ہوگا۔

عالمی سطح پر یہ تاثر توانا ہو رہا ہے کہ اسرائیلی حکومت معاشی خرابیوں پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اُس کی ساکھ کو روز بروز نقصان پہنچ رہا ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ عام اسرائیلی یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ کہیں اُن کے ملک کو پِچھڑا ہوا تصور نہ کرلیا جائے۔

وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو غزہ کی صورتِ حال سے خوفزدہ کرکے عوام کو بے وقوف بناتے آئے ہیں۔ گزشتہ برس نیتن یاہو نے عدلیہ کی خود مختاری کو داؤ پر لگانے والا متنازع قانون بنایا تھا جس نے ملک کی ساکھ داؤ پر لگادی تھی۔ اب نیتن یاہو حکومت کی بقا کا مدار غزہ کی لڑائی کے جاری رہنے اور کسی بھی سیاسی تصفیے کا امکان ختم ہوجانے پر ہے۔ معاملات درست ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ بجٹ خسارے کو قابو میں رکھنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ لازم ہے۔ بہر کیف، غزہ کی لڑائی کے جاری رہنے کی صورت میں نیتن یاہو حکومت کے گرنے کا احتمال نہیں۔

(’’مڈل ایسٹ مانیٹر‘‘ کے لیے یہ مضمون عزیز مصطفی نے تحریر کیا ہے۔)