کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ کا 30 کھرب 56 ارب کا بجٹ پیش، تنخواہوں میں 30 اور پنشن میں 15 فیصد اضافہ، کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر، جنرل سیلزٹیکس 2فیصد بڑھا دیا، جی ایس ٹی آن سروسزکا دائرہ نئے شعبوں تک پھیلادیا گیا، ترقیاتی بجٹ میں 429 ارب کا اضافہ،تعلیم 519 ، صحت 334 ، لوکل گورنمنٹ 329 ،زراعت 58 ، توانائی 77 ، آبپاشی 94 ،ورکس اینڈ سروسز 86 ،پلاننگ 30 ، ٹرانسپورٹ کے لیے 56 ارب مختص،سب سے بڑا شہر کراچی پھر سے نظر انداز، کراچی کے لیے کوئی نئی میگا اسکیم نہیں رکھی گئی،شہرقائد کو قابل رہائش بنانے کے منصوبے کلک کے لیے محض7 کروڑ 50 لاکھ مختص کیے گئے۔ اپوزیشن نے بجٹ مسترد کردیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جمعہ کو آئندہ مالی سال 25-2024کے لیے صوبہ سندھ کا30 کھرب 56 ارب روپے کا بجٹ سندھ اسمبلی میں پیش کردیا ہے،سندھ حکومت نے تنخواہوں میں 22 سے 30 فیصد ،پنشن میں 15 فیصد اضافے،کم از کم اجرت 37ہزار روپے مقررکرنے اورسالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 959 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیاہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی بجٹ تقریرمیں 12 ملین کسانوں کو ہاری کارڈ منصوبے کے تحت 8 ارب روپے مالی مدد فراہم کرنے اورسولرائزیشن منصوبے کے لیے 5 ارب روپے ،ملیر ایکسپریس وے کورنگی میں ایک انکلیوو کمپلیکس کی تعمیرکے لیے 5 ارب روپے کا بھی اعلان کیا۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ بجٹ میں بنیادی طور پر سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور غریبوں کے لیے سماجی تحفظ سے متعلق منصوبوں کواہمیت دی گئی ہے۔ صوبے کی کل متوقع آمدنی تین ٹریلین روپے ہے جسکی اکثریت وفاقی منتقلی 62 فیصد اوراس کے بعد صوبائی وصولیاں 22 فیصد پر مبنی ہوگی جبکہ 22 ارب روپے کی کرنٹ کیپٹل ، 334 ارب روپے کی غیر ملکی پراجیکٹ امداد، 77 ارب روپے کی PSDP ودیگر وفاقی گرانٹس، 6 ارب روپے کی غیر ملکی گرانٹس اور 55 ارب روپے کیری اوور کیش بیلنس کے ذریعہ حاصل ہوگا۔ 662 ارب روپے کی صوبائی وصولیوں میں 350 ارب روپے کی سروسز پر سیلز ٹیکس، 269 ارب روپے کے جی ایس ٹی کے علاوہ ٹیکس اور 42.9 ارب روپے کی صوبائی نان ٹیکس وصولیاں شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ سند ھ نے بجٹ تقریر میں کہاکہ 63 فیصد یعنی 1.9 ٹریلین روپے کرنٹ ریونیو کی طرف جاتا ہے، 6 فیصد یعنی 184 ارب روپے کرنٹ کیپٹل کے لیے اور بقیہ 31 فیصد یعنی 959 ارب روپے ترقیاتی اخراجات کے لیے رکھے ہیں،ترقیاتی بجٹ میں 429 ارب کا اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تنخواہوں کا سب سے بڑا حصہ 38 فیصد ہے، اس کے بعد مختلف پروگراموں کے لیے گرانٹس 27 فیصد ہیں۔ غیر تنخواہ کے اخراجات 21 فیصد جوکہ آپریشنل اخراجات، منتقلی، سود کی ادائیگی اور دیگر پر مشتمل ہیں۔ ملازمین کی پنشن اور ریٹائرمنٹ کے فوائد موجودہ اخراجات کے 14 فیصد بنتا ہے۔ کرنٹ کیپٹل اخراجات میں 42 ارب روپے کی بجٹ کی رقم قرضوں اور دیگر کی ادائیگی کے لیے جبکہ 142.5 ارب روپے سرکاری سرمایہ کاری کے لیے شامل ہے۔ ترقیاتی اخراجات میں صوبائی اے ڈی پی شامل ہے جس میں 493 ارب روپے کی فارن پراجیکٹ اسسٹنس، 334 ارب روپے کی فارن پراجیکٹ اسسٹنس، 77 ارب روپے کی PSDP کے ذریعے دیگر وفاقی گرانٹس اور 55 ارب روپے کی ڈسٹرکٹ ADP شامل ہیں۔سندھ کے صوبائی بجٹ میں سماجی خدمات میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی گئی ہے۔ تعلیم کے لیے 519 ارب روپے جس میں 459 ارب روپے موجودہ آمدنی کے اخراجات کے لیے مختص ہیں، صحت کے لیے334 ارب روپے ہے جس میں 302 ارب روپے موجودہ اخراجات کے لیے مختص ہیں۔ لوکل گورنمنٹ 329 ارب روپے کے مجوزہ بجٹ کے ساتھ ٹاپ تھری میں شامل ہے۔آئندہ مالی سال 25-2024میں مقامی کونسلوں کا بجٹ 121 ارب روپے سے بڑھا کر 160 ارب روپے کر دیا گیا ہے بجٹ میں بنیادی انفرااسٹرکچر کے اہم شعبوں کے لیے ترقیاتی بجٹ مختص کرنے کااعلان کیا گیا ہے جن میں زراعت کے لیے 58 ارب روپے ، توانائی کے لیے 77 ارب روپے ، آبپاشی کے لیے 94 ارب روپے ،ورکس اینڈ سروسز کے لیے 86 ارب روپے اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے 30 ارب روپے ، ٹرانسپورٹ کے لیے 56 ارب روپے، ایس جی اینڈ سی ڈی کے لیے 153 ارب روپے اورامن وامان کے لیے 194 ارب روپیشامل ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ کا صوبائی بجٹ سماجی اور معاشی بہبود باالخصوص حالیہ سیلاب متاثرین کیلیے کئی اہم امدادی اقدامات شامل ہیں۔34.9 ارب روپے سماجی سرمایہ کاری کے لیے رکھے ہیں جو متوسط آبادی کی براہ راست مدد فراہم کرے گی۔ بجٹ میں شہریوں پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے 116 ارب سبسڈی پروگرام شامل ہیں محفوظ پناہ گاہ کے لیے ہاؤسنگ اسکیموں کے تحت 25 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ سندھ بجٹ میں ہاری کارڈ کے تحت کسانوں کومالی امداد کے لیے آٹھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس سے 12 ملین کسانوں کو مالی مدد ملے گی۔ملیر ایکسپریس وے کے ساتھ کورنگی میں ایک کمپاؤنڈ کے اندر تعلیم، بحالی، تربیت، رہائش، طبی خدمات، تفریح اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایک انکلیوو کمپلیکس بنانے کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پولیس کے لیے پہلی بار 485 پولیس اسٹیشن کے لیے مخصوص بجٹ مختص کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے پیٹرول، مرمتی کام اور کمیونٹیز کی خدمت کے لیے روزانہ کے اخراجات کو پورا کر سکیں۔ بجٹ میں سولرائزیشن کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کراچی کو پانی فراہم کرنے کے لیے ایک حب کینال جیسی نئی نہر کی تعمیر کے لیے فورکے لیے 5 ارب روپے کا اعلان کیا گیاہے۔ مزدور کارڈ کے تحت 5 ارب روپے کا فلاحی پروگرام سندھ میں مزدوروں کو مدد فراہم کرے گا۔ سماجی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بجٹ میں زراعت کے لیے 11 ارب روپے، سماجی تحفظ کے لیے 12 ارب روپے، یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے لیے 3.2 ارب روپے، ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ کے لیے 2 ارب اور ڈی ای پی ڈی کے لیے 1.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 190 ارب روپے میں سے 35 ارب روپے سندھ بھر کی یونیورسٹیوں کے لیے باقی گرانٹس بڑے اسپتالوں اور طبی اداروں ایس آئی یو ٹی،این آئی سی وی ڈی، انڈس اسپتال، ایس آئی سی ایچ این اور ٹراما سینٹرز کوفراہم کی جائیں گی۔ بجٹ میں 485 پولیس تھانوں کو بہتر بنانے پر 3 ارب 75 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔بجٹ د ستاویز کے مطابق سندھ حکومت آئندہ مالی سال پولیس کے لیے ایک ارب 80 کروڑ روپے کا اسلحہ خریدے گی۔ہجوم پر قابو پانے کے لیے 20 کروڑ روپے کے خصوصی آلات خریدے جائیں گے۔پولیس فورس کی ہیلتھ انشورنس کے لیے 4 ارب 96 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔پولیس کی فرائض کی انجام دہی میں حوصلہ افزائی کے لیے 23 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔سندھ میں ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ انٹرا ڈسٹرکٹ پیپلز بس سروس پراجیکٹ کے لئے 3 ارب 65 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔بجٹ دستاویز کے مطابق50 الیکٹرک بسوں کی خریداری کے لیے 82 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے سندھ کے بجٹ میں 4 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کے گئے ہیں۔سندھ کے نئے مالی سال کے بجٹ میں صوبے کی جیلوں کی سیکیورٹی بڑھانے پر 21 کروڑ 25 لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔بجٹ دستاویز کے مطابق جیلوں کی بہتری کے لیے مشینری، ہارڈویئر سافٹ ویئر اسلحہ خریدا جائے گا۔سندھ کی جیلوں میں قیدیوں کی خوراک پر 2 ارب 74 کروڑ 55 لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ بجٹ میں کراچی کو قابل رہائش شہر بنانے کے منصوبے کلک کے لیے ،7 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے سروسز پر جی ایس ٹی کی شرح 13 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر دی ہے جبکہ جی ایس ٹی آن سروسز کا دائرہ کئی نئے شعبوں تک پھیلا دیا ، فنانس بل کے مطابق ایجوکیشن سروسز، اسپتالوں اور کلینکس کی خدمات اور پیٹس(پالتو جانوروں)سے متعلق خدمات دینے والے اداروں ،فارم ہاؤسز ،میڈیکل پریکٹیشنرز اور کنسلٹنٹس کی خدمات پر بھی جی ایس ٹی آن سروسز عائد ہوگا۔ بجٹ میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لیے کوئی نئی میگا اسکیم شامل نہیں کی گئی، جبکہ کئی چھوٹے منصوبوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔ کراچی بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبے کے لیے بجٹ میں 2 ارب 79 کروڑ روپے مختص جبکہ کراچی اربن موبیلٹی یلو لائن پروجیکٹ کے لیے 6 کروڑ 97 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی اورنج لائن منصوبے پر آئندہ مالی سال میں 85 کروڑ روپے خرچ ہوں گے اور 300 ڈیزل ہائی برڈ بسوں کی خریداری کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح گریٹ کراچی سیوریج پلان ایس تھری منصوبے کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 3 ارب 18 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ شہرقائد کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے10 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کراچی کو قابل رہائش شہر بنانے کے منصوبے کلک کے لیے 7 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کراچی سیف سٹی فیز ون منصوبے کے ریڈ زون ائرپورٹ کوریڈور میں 1300 نئے کیمرے نصب ہوں گے، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سیف سٹی کراچی کے لیے ایک ارب 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ پولیس ویڈیو سرویلینس سسٹم کے تحت کراچی میں 2 ہزار نئے مقامات پر 10 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوں گے، جس کے لیے 16 لاکھ 34 ہزار روپے مختص کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں شہرقائد میں پہلے سے جاری 11 اسکیموں کے لیے ایک ارب 38 کروڑ 94 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشید سندھ بجٹ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان بجٹ کو مسترد کرتی ہے۔یہ اعداد کا ہیر پھیر ہے۔ہم سندھ اسمبلی میں اپنا بھرہور احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔