کچھ یادگار واقعات

411

بجٹ، وزیر اعظم کا دورہ چین، سی پیک کی تازہ ترین صورتحال، بھارتی انتخابات اور پاکستانی انتخابات میں فرق، مولانا فضل الرحمن کی سیاست اقداری ہے یا اقتداری اور اسی طرح دیگر موضوعات ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن کچھ لوڈشیڈنگ، کچھ طبیعت کی اداسی، اپنے قریبی دیرینہ ساتھی شہاب بھائی کی رحلت کی وجہ سے کمپیوٹر کی طرف رخ کرکے بیٹھنے کو دل ہی نہیں چاہا۔ ان شاء اللہ موقع ملا تو ان تمام عنوانات پر اپنا اظہار خیال کریں گے۔ فی الحال کچھ پرانے واقعات یاد آرہے ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور دلخراش بھی۔

جو لوگ پاکستان بننے کے بعد فوری طور پر کراچی آگئے یا جو پہلے سے رہ رہے تھے ان کو یہ واقعہ یاد ہوگا کہ جو 1950 کے بعد کے کسی سال کا ہے یا اس سے پہلے کا۔ گرومندر سے آگے پرانی نمائش کا اسٹاپ ہے اس کا نام پرانی نمائش رکھا ہی اس وجہ سے تھا کہ ایک زمانے میں یہاں نمائش لگتی تھی۔ ایک سال کی نمائش میں یہ اندوہناک واقعہ جو میں نے لوگوں سے سنا اور بعد میں اس کی مختلف ذریعوں سے تصدیق بھی ہوئی۔ رات کا وقت تھا اچھا خاصا رش تھا کہ ایک پولیس آفیسر کا اچانک دماغ خراب ہوگیا (جیسا کہ میں نے سنا) اور اس نے اپنی پستول سے اچانک اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اس میں ایک عورت کے پیٹ میں گولی لگی وہ جو حاملہ بھی تھی گرگئی پیٹ سے بچہ نکل آیا فوراً اسپتال لے جایا گیا عورت تو مرگئی بچہ بچ گیا۔ یہ خاتون ہمارے علاقے میں رہتی تھیں میں جب اپنے حلقے کا ناظم بنا تو اس وقت ہمارے ایک کارکن نے یہ واقعہ سنایا جو ان کے پڑوسی اور رشتہ دار بھی تھے یہ دونوں خاندان بالکل دیوار بیچ پڑوسی اور الہ آباد سے ہجرت کرکے آئے تھے لیکن دونوں کی سیاسی وابستگی الگ تھی اس خاندان کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا اور دوسرے کا تعلق جماعت اسلامی سے، جو ہمارے کارکن تھے اب تو ان کا بھی برسوں ہوئے انتقال ہوگیا، وہ یہاں سے فیڈرل بی ایریا منتقل ہوگئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا اور وہ خاندان بھی جس کے گھر یہ سانحہ ہوا بہت پہلے ہی یہاں سے شفٹ ہوگئے تھے۔ ہمارے کارکن ساتھی نے بتایا کہ ان کے گھر مولانا بھاشانی بھی کئی بار آچکے ہیں ایک دفعہ ہم اپنے ان ہی کارکن سے ساتھ ہوٹل میں یا کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے ایک لڑکا سامنے سے گزرا انہوں نے اسے دیکھ کر کہا یہ ہے وہ لڑکا جو گولی سے پیدا ہوا تھا میں نے دل میں سوچا گولی سے اب تک مرنے کا تو سنا تھا گولی سے پیدا ہونے کا پہلی بار سنا ہے، پھر سنا کہ وہ لڑکا بھی 35سال کی عمر میں وفات پا گیا۔

ایک زمانے میں کراچی میں بسوں میں ڈرائیور اور کنڈکٹر کی غنڈہ گردی بہت چلتی تھی یہ دو آدمی پوری بس پر حاوی تھے اگر کسی مسافر سے جھگڑا ہوجائے تو آگے کسی اسٹاپ پر جہاں بس میں مسافر بہت کم رہ جائیں اور وہ جھگڑا کرنے والا موجود ہے تو پھر اس کی زبردست ٹھکائی ہوتی ایک دفعہ میں چھے نمبر کی بس میں دستگیر جا رہا تھا راستے میں کسی مسافر کا کنڈکٹر سے جھگڑا ہوگیا ایک اور لڑکا اس مسافر کی طرف سے بول پڑا لوگوں نے بیچ بچائو کرادیا جس پسنجر سے لڑائی ہوئی تھی وہ تو راستے میں کہیں اترگیا لیکن وہ لڑکا جو اس کی حمایت میں بولا تھا وہ آخر تک بیٹھا رہا آخری اسٹاپ سے کچھ پہلے جب بس میں چار پانچ لوگ رہ گئے تھے کنڈکٹر نے اپنا تھیلا ایک سیٹ پر رکھا اور پھر خوب دل بھر کے اس نوجوان کی پٹائی کی لوگوں کی تو ہمت نہیں تھی ڈرائیور نے آکر اسے علٰیحدہ کیا۔ ایک دفعہ ایمپریس مارکیٹ کے اسٹاپ پر کنڈکٹر نے ایک طالبہ کا شناختی کارڈ دیکھا وہ شاید پرانا کارڈ تھا (اس وقت بسوں میں طلبہ کو بسوں کے کرائے میں رعایت ملتی تھی) کنڈکٹر نے وہ کارڈ شیشے سے باہر پھینک دیا اور اس طالبہ سے پورا ٹکٹ لیا اس پر کچھ لوگوں نے اس کنڈکٹر کو برابھلا کہا ریگل کے اسٹاپ پر اس زمانے میں عموماً ڈرائیوروں کی ڈیوٹیاں چینج ہوتی تھیں وہاں پر ان کی اچھی خاصی تعداد ہوتی بس جب ریگل پر پہنچی تو اس کنڈکٹر نے اپنے اور ساتھیوں کو بلایا اور ان لوگوں کی پٹائی شروع کردی جو اس طالبہ کی طرف سے بولے تھے کسی کا سر پھٹ گیا ایک بڑے میاں کے منہ سے خون نکل رہا تھا ان کا سارا کرتا پھٹ گیا تھا۔ پھر جب 1985 میں چورنگی پر بشریٰ زیدی کا حادثہ ہوا جس میں بشریٰ کا انتقال ہوگیا پھر وہ لاوا جو برسوں سے کراچی میں پک رہا تھا پھٹ گیا کئی دن کراچی ہنگاموں کی لپیٹ میں رہا لیاقت آباد میں کئی نوجوان پولیس کی ٹاگیٹڈ فائرنگ سے ہلاک ہوئے یہ واقعہ کراچی کی سیاست کا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا، اس کے بعد ایم کیو ایم کا وجود عمل میں آیا پھر تو نقشہ بالکل الٹ گیا کہ ایک دوست نے آنکھوں دیکھا حال بتایا کہ عید گاہ کے اسٹاپ پر بائیک پر دو نوجوان ایک بس ڈرائیور کو اس طرح مار رہے تھے کے ڈرائیور کے دروازے پر بائیک کھڑی تھی ایک لڑکا تو بائیک پر بیٹھا ہوا تھا دوسرا بائیک کی سیٹ پر کھڑا ہوکر ڈرائیور کو گھونسے سے مار رہا تھا اور ڈرائیور سر پیچھے کرکے ان سے بچنے کی کوشش کررہا تھا کسی میں یہ ہمت نہیں تھی ان پندرہ سولہ برس کے نوجوانوں کو روک لے بس کا کنڈکٹر بھی اتر کر نہیں آیا بات پھیل گئی اور مصیبت ہو جائے گی۔

میں جو اصل واقعہ سنانا چاہتا تھا وہ بھی 1950 کے بعد کے کسی سال کا ہے یہ بڑا دلخراش واقعہ ہے یہ ہمارے ایک استاد نے ہمیں سنایا تھا بعد میں میں نے اس علاقے کے اور لوگوں سے تصدیق چاہی تو ایک ہم عمر دوست نے کہا کہ ہاں میں نے اپنے بڑوں سے اس قسم کا واقعہ سن رکھا ہے۔ اس زمانے میں 78نمبر کی بس فیڈرل کیپٹل ایریا سے ٹاور تک جاتی تھی پھر بعد میں اس کا روٹ بڑھا کر ڈاکیارڈ تک کردیا گیا۔ ایک دن یہ بس ٹاور سے واپس ایف سی ایریا آرہی تھی اس بس میں کنڈکٹر سے کسی پسنجر کا جھگڑا ہوگیا آفیسر رینک کے ایک صاحب جو ایف سی ایریا میں رہتے تھے وہ اس پسنجر کی طرف سے بول پڑے اور انہیں آخری اسٹاپ پر اترنا تھا اس زمانے میں آخری اسٹاپ ایف سی ایریا کے ایک میدان میں تھا وہ صاحب بس سے اتر کر میدان سے جارہے تھے کہ اس کنڈکٹر اور ڈرائیور نے اپنے دیگر ڈرائیوروں کو پتا نہیں کیا کہانی سنائی کہ سب ڈرائیور اپنی اپنی بسوں میں بیٹھ گئے پھر ان صاحب نے دیکھا کہ ایک بس ان کی طرف آرہی ہے وہ دوسری طرف بھاگے تو ادھر سے دوسری بس انہیں کچلنے کے لیے آرہی تھی وہ تیسری طرف بھاگے وہاں بھی ایسی ہی صورتحال تھی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کئی بسوں کے نرغے میں آکر بری طرح کچل دیے گئے اور وہ اسی وقت دم توڑ گئے دوپہر کا وقت تھا ایف سی ایریا میں تو ویسے ہی بھی سناٹا رہتا ہے پھر یہ تو سن پچاس کی دہائی کی بات ہے یہ ایسا دلخراش واقعہ ہے جو برسوں علاقے کے لوگوں میں آپس کی گفتگو کا موضوع بنارہا۔