کہا جاتا ہے کہ جہاں بیٹے اللہ کی نعمت ہوتے ہیں وہاں بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر گھروں میں بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دی جاتی ہے، بیٹوں کو اچھے اسکول و کالج میں تعلیم دلوائی جاتی ہے جب کہ بیٹیوں کو کم درجہ کے اسکول بھیجا جاتا ہے، بیش تر بیٹیاں بھائیوں کی خاطر والدین کی یہ نا انصافی خوشدلی سے قبول کر جاتی ہیں۔ مگر اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کے بیٹے اچھے اسکول و کالجز میں جا کر بھی نکمے نکھٹو ہی رہتے ہیں، جبکہ بیٹیاں کم درجہ کے اسکول و کالجز میں جا کر بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر جاتی ہیں۔ جتنا احساس والدین کا بچیاں کرتی ہیں شاید ہی کوئی بچہ اتنا احساس والدین کا کرتا ہوا نظر آئے۔ ارد گرد نظر دوڑائیں تو اکثر بوڑھے جنہوں نے جائداد میں بھی بیٹیوں کا حق مارا ہوا ہو گا آخری عمر میں اپنی بیٹیوں کے در سے ہی سکون پاتے نظر آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی دو نعمتوں کے ساتھ ساتھ دو رحمتوں سے بھی نوازا۔ سید ابوالاعلی مودودی کی روحانی تربیت، اسلامی جمعیت طلبہ، البدر و جماعت اسلامی کے زیر سایہ پرورش کی وجہ سے، اور خاص کر اللہ کے کرم سے نعمت اور رحمت میں کبھی فرق کا سوچا بھی نہیں تھا۔ مگر چند ماہ قبل جب بڑی بیٹی کو اس کے گھر نم آنکھوں سے رخصت کیا تو احساس ہوا کہ میں نے تو اپنی بیٹی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ جو کچھ بھی ہوا سب اللہ ربّ العزت کی خاص رحمت سے ہوا۔ کیسے بیٹی نے ایم فل تک تعلیم اعلیٰ اسکول و کالجز و یونیورسٹیوں میں حاصل کی، کیسے اس کی فیسیں اور دیگر اخراجات بروقت پورے ہوتے رہے۔ بیٹوں کے اخراجات کے لیے ہمیشہ پریشانی رہی کہ جب فیس کی پرچیاں ملتی کبھی پاس رقم ہوتی کبھی نہیں، کبھی باغ کے بیوپاری سے ادھار لیتے کبھی آڑھتی سے یا کبھی کسی دوست سے۔ مگر اللہ کی اتنی رحمت رہی کہ جب بھی بیٹیوں کی فیس و اخراجات کی باری آتی کسی سے کچھ نہ لینا پڑتا۔
اللہ کی رحمت دیکھیں بیٹی (آئمہ چودھری بنت ناصر گورایہ) کی شادی کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے دولہا کی والدہ جو میری سگی چچی بھی ہیں، ہمراہ اپنے داماد بیٹوں کے آئے تو اتفاق سے کسانوں کا تیرہواں مہینہ چل رہا تھا، بہت سارے دوست جو کسان نہیں اس تیرہویں مہینہ سے آشنا نہیں ہوں گے۔ یہ کسانوں کا وہ مہینہ ہوتا ہے جب پچھلی فصل کے پیسے کسان ڈکار چکا ہوتا ہے اور اگلی فصل ابھی تیار نہیں ہوتی۔ میں نے انہیں کہا کہ چار پانچ ماہ دے دیں، باغ وغیرہ فروخت ہو جائے گا ، تو آسانی رہے گی۔ مگر میری چچی جان نے کہا گھر کی بات ہے تم پریشان نہ ہو، تم کو کچھ بھی نہیں کرنا، تم کیوں پریشان ہوتے ہو، میرا ایک ہی بیٹا ہے جو کچھ میرے پاس ہے سب کچھ اسی کا تو ہے، بہرحال دن جو وہ سوچ کر آئے تھے وہی طے ہو گیا۔
مہمانوں کے رْخصت ہوتے ہی سب سے پہلے اپنے لاڈلے نائی افضل نیازی (پکوان) کو بلایا اسے تاریخ سے آگاہ کیا اور تیاری ابھی سے شروع کرنے کا کہا۔ نائی نائی ہوتا ہے اور پھر نسلی نائی قسمت والوں کو ملتے ہیں، اس نے دیکھا کہ میں کچھ پریشان ہوں تو اس نے میرے ہی الفاظ جو میں اکثر ایسے مواقع پر لوگوں کو سناتا رہتا ہوں کا حوالہ دے کر تسلی دی۔ اس نے کہا کہ آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ بیٹی کا دن مقرر کر لیں یا کسی مسجد کی تعمیر کی بنیاد رکھ لیں کبھی یہ کام ادھورے نہیں رہتے، اللہ کی خاص برکت سے پتا بھی نہیں چلتا کہاں کہاں سے وہ مدد عنایت کر دیتا ہے اور یہ مشکل کام مکمل ہو جاتے ہیں۔
اللہ کی رحمت کے نظارے دیکھیں کہ اسی رات سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ بھائی و بھابھی نے ایک لفافہ تھما دیا جس میں اچھی خاصی رقم تھی کہ ہماری طرف سے بیٹی کے من پسند کے تحائف لے لیں۔ بس پھر اللہ کی رحمت کا ایسا سلسلہ چلا کہ جتنا اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کریں اتنا ہی کم ایک دوست کو پتا چلا تو وہ شہر کی نامی گرامی کپڑوں، برتنوں، بستروں کی دکانوں پر لے گئے، جو چاہیے یہاں سے خرید لیں بل جانے اور میں جانوں، آپ جب رقم ہو گی عنایت کر دیجیے گا۔
بیگم صاحبہ اپنی ایک سہیلی کو ساتھ لے کر الیکٹرونکس کی جو چیزیں رہ گئی تھیں ان کی خریداری کے لیے بازار گئیں جب چیزیں فائنل ہو گئیں، پیمنٹ کرنے لگے تو ان کی سہیلی نے زبردستی پیمنٹ کر کے کہا کہ میں بھی تو بیٹی کی خالہ ہوں یہ میری طرف سے تحفہ ہے۔ کراچی میں مقیم ایک دوست کو پتا چلا اس نے کہا بیڈ روم کا فرنیچر کراچی سے آئے گا آپ نے نہیں بنوانا، بھتیجی کے لیے میرا تحفہ ہے، منع کرنے کے باوجود اس نے زبردستی بہت ہی نایاب بیڈ سیٹ بنوا کر بھیج دیا۔ بس پھر کیا تھا نہ کوئی رشتہ دار پیچھے رہا نہ کوئی دوست، نہ امیر نہ غریب، ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر بغیر کسی احسان کے، بغیر کسی دکھاوے کے بھر پور تعاون کیا۔ والد صاحب کی ایک انتہائی غریب منہ بولی بہن ایک وچھا (بچھڑا) جو وہ قربانی کے لیے پال رہی تھیں، میرے پاس لے کر آ گئیں کہ میں تے پتر بس اے ای تیری مدد کر سک دی آں۔
شادی بیاہ کی رسوم میں ہم خاندانی روایت کے مطابق کاپی پنسل دے کر کسی کو نہیں بٹھاتے اور نیوندرا وغیرہ نہیں لیتے۔ آپ یقین جانیں دوست احباب، برادری و رشتہ داروں نے زبردستی اتنے لفافے جیب میں ٹھونس دیے کہ اپنی، اپنی بیٹی اور خصوصاً والدین کی زندگی پر رشک آنے لگا۔ میں کہاں اور میری اوقات کہاں اور کہاں یہ اللہ کی رحمت سبحان اللہ۔ سیدنا علیؓ سے ایک قول منسوب کیا جاتا ہے کہ جس کے مخلص دوست ہوں وہ کبھی غریب نہیں ہوتا۔ اللہ کی رحمت کے میری شادی خانہ آبادی کی طرح نکاح امیر جماعت اسلامی ضلع سرگودھا نے پڑھایا اور مربین و دوستان جمعیت، جماعت، البدر و حزب نے دیگر عزیز اوقارب، دوست احباب و ذمہ داران برادری کے ساتھ بھرپور شرکت کی۔ دلہا کی بہنوں نے خاندانی روایت سے ہٹ کر دلہن کا شاندار استقبال کیا۔ اسی طرح گزشتہ دنوں بیٹی مریم بنت سردار ذوالفقار کی شادی میں شرکت کے لیے کراچی جانا ہوا وہاں اللہ کی رحمت کے عجیب ہی رنگ دیکھے۔ ایک نامی گرامی اسکول چین کے مالک جو کبھی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم درجہ کے ہوٹل میں نہیں ٹھیرتے بلکہ جہاں جائیں صبح کی فلائٹ سے جاتے اور شام کی فلائٹ سے واپس پلٹ جاتے۔ اپنے شاگرد کی بیٹی کی خوشیوں میں شرکت کے لیے دو یوم قبل پہنچے، نکاح خود پڑھایا اور شاگرد کے گھر ہی دیگر شاگردوں کے ساتھ فرش پر ہی سوئے۔ سچ ہے کہ بیٹیاں رحمت ہی رحمت۔