آج کل امریکا اور ویسٹ انڈیز میں ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 کے مقابلے جاری ہیں، قومی کرکٹ ٹیم نے تا دم تحریر تین مقابلوں میں ایک جیتا ہے۔ امریکا اور خاص کر بھارت سے شکست کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کڑی تنقید کی زد میں ہے، ٹیم پر بظاہر مایوسی کا دورہ ہے جب کہ سوشل میڈیا سے آنے والی خبروں کے مطابق مختلف کھلاڑی دعوتوں سے لطف اندوز اور کچھ فوڈ اسٹریٹ پر مزے اڑا رہے ہیں۔
دورہ برطانیہ میں شکست کے بعد ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے قومی کرکٹ ٹیم امریکا روانہ ہونے لگی تو 30 مئی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سید محسن رضا نقوی نے لندن میں ایک بیان میں کہا کہ ’’بابر اعظم ہی اکیلا سب پر بھاری ہے، یہ وقت ٹیم کو سپورٹ کرنے کا ہے لہٰذا چار ہفتے تک تنقید سے گریز کریں، لیکن صرف دس دن بعد ہی انہیں اپنے پہلے بیان سے منحرف ہونا پڑا جب ہندوستان سے قومی کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد 10 جون کو ان کا یہ بیان اخبارات کی زینت بنا ’’آج کی شکست ہر لحاظ سے مایوس کن تھی، قومی کرکٹ ٹیم اس وقت اپنی سب سے کم درجے کی پرفارمنس پر ہے، لگتا تھا کہ کرکٹ ٹیم کا کوئی چھوٹی سرجری سے کام چل جائے گا لیکن آج کی خراب کارکردگی کے بعد یقین ہو گیا کہ ٹیم میں بڑی سرجری کی ضرورت ہے، قوم جلد بڑی سرجری ہوتے ہوئے دیکھے گی، اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹیم میں کیا چل رہا ہے اور ہارنے کی وجوہات کیا ہیں‘‘۔
اگر دیکھا جائے تو محسن نقوی بطور چیئرمین کرکٹ بورڈ، ٹیم کی موجودہ کارکردگی کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہے ہیں جو کہ انہیں کرنی چاہیے۔ سلیکشن کمیٹی نے جن کھلاڑیوں کا انتخاب کیا تھا محسن نقوی نے منظوری دی تھی، یہ درست ہے کہ ایک مرحلے پر انہوں نے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا اعلان روک دیا تھا لیکن انہوں نے کھلاڑیوں کے ناموں پر اعتراض نہیں اٹھایا تھا بلکہ ٹیم کے انتخاب کے عمل کے حوالے سے ان کے اعتراضات تھے جنہیں دور کرنے کے بعد ٹیم کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے موجودہ کیپٹن بابر اعظم صرف اپنی بیٹنگ کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم کیپٹن بنائے گئے تھے جبکہ اصولی طور سے ٹیم کپتان کا تقرر اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ کپتانی کے جوہر سے بھی آگاہ ہو، بحیثیت کیپٹن بھی اس میں صلاحیتیں ہوں۔ گزشتہ چند برسوں سے غیر ملکی کوچز کی خدمات کے باوجود بشمول ون ڈے ورلڈ کپ 2023 اور دیگر ممالک کی قومی ٹیموں سے مقابلے میں ناقص کارکردگی اور شکست سے قومی ٹیم کا کمزور پہلو، مڈل آرڈر بیٹنگ، میچ کی فائنل فنشنگ کا فقدان، دنیا کے سامنے اور ٹیم کے اندر گروپنگ کے پہلو پاکستانی قوم کے سامنے تھے۔
ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 کی 15 رکنی ٹیم کے ساتھ 15 رکنی پلیر سپورٹ پرسنل کا ساتھ جانا بھی ایک معمے سے کم نہیں۔ وہاب ریاض پہلے ٹیم کے چیف سلیکٹر تھے، ٹیم سلیکٹ کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا تھا لیکن انہیں بحیثیت سینئر ٹیم مینجر بنا کر لے جانے کا مقصد ان کو ’’ایڈجسٹ‘‘ کرنے کے علاوہ آخر اور کیا ہوسکتا ہے؟، کھلاڑیوں کی معاونت کے لیے جو عملہ یعنی پلیر سپورٹنگ پرسنل گئے ان کی ذرا فہرست دیکھیے، وہاب ریاض (سینئر ٹیم منیجر)، منصور رانا (ٹیم منیجر)، گیری کرسٹن (ہیڈ کوچ)، اظہر محمود (اسسٹنٹ کوچ)، سائمن ہیلموٹ (فیلڈنگ کوچ)، ڈیوڈ ریڈ (مینٹل پرفارمنس کوچ)، آفتاب خان، (ہائی پرفارمنس کوچ)، ڈریکوس سائمن (اسٹرینتھ اینڈ کنڈیشننگ کوچ)، ایم یوسف (بیٹنگ کوچ)، کلف ڈیکن (فزیو تھراپسٹ)، محمد خرم سرور (ٹیم ڈاکٹر)، محمد عمران (مالش کرنے والا)، طلحہ اعجاز (تجزیہ کار)، رضا کچلو (میڈیا اور ڈیجیٹل منیجر)، ارتضا کومائل (چیف سیکورٹی آفیسر)۔
پلیر سپورٹنگ پرسنل کے ناموں میں کئی غیر ملکی ہیں۔ ان کے مشاہرے کتنے ہوں گے اندازہ لگائیں؛ سعودی جریدے اردو نیوز کی 15 مارچ 2024 کی خبر کے مطابق شین واٹسن کی بطور کوچ خدمات حاصل کرنے کے لیے انہیں بیس لاکھ ڈالرز سالانہ تنخواہ مساوی 55 کروڑ روپے سالانہ یعنی تقریباً ساڑھے چار کروڑ روپے ماہانہ معاوضہ کی پیشکش کی گئی اور انہیں تمام مطالبات پورے کیے جانے کی یقین دھانی بھی کروائی گئی، یہ علٰیحدہ بات ہے کہ بوجہ انہوں نے یہ پیشکش قبول نہیں کی اور ان کی جگہ دوسرے ’’گورے‘‘ کو بھرتی کر لیا گیا۔ ایک اطلاع کے مطابق پی سی بی کے سابق چیئرمین ذکا اشرف نے بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ 2023 میں قومی ٹیم کی کارکردگی کے بعد غیر ملکی کوچز مکی آرتھر، گرانٹ بریڈ برن اور اینڈریو پوٹک کو چھوڑ نے اور بطور کوچ ملکی سابق کھلاڑیوں کے انتخاب کا فیصلہ کیا تھا جو بڑا احسن اقدام تھا، ایک باصلاحیت وطن سے مخلص اور ذمہ دار کوچ، کھلاڑیوں کی رہنمائی اور ٹیم کی تمام تربیت کی ضروریات احسن طریقے سے پوری کرسکتا تھا۔
1992 کے ورلڈ کپ میں صرف انتخاب عالم ٹیم کے ساتھ گئے تھے اور واقعتا ایک یا دو سے زیادہ ٹیم آفیشلز یا طبی ضروریات کے علاوہ اور کیا بیرونی دورے میں ٹیم کی اصل ضروریات ہو سکتی ہیں۔ 15 افراد پر مشتمل پلیر سپورٹ عملہ پر سالانہ کتنے بھاری اخراجات آرہے ہوں گے؟، یہ ایک ایسے غریب ملک کی دولت لٹائی جا رہی ہے جہاں اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق ملک کا ہر شہری دو لاکھ اسی ہزار روپے کا مقروض ہے۔
دنیائے کرکٹ میں بڑے نام حنیف محمد، جاوید میاں داد، ظہیر عباس، عمران خان وغیرہ یہ سب اپنی محنت سے نمایاں بھی ہوئے اور ملک کا نام بھی روشن کیا۔ ٹی 20 ورلڈ کپ سے پہلے اپنے ایک انٹرویو میں سابق ٹیسٹ کرکٹر ظہیر عباس نے بتایا کہ جب انہوں نے کرکٹ شروع کی تو اس وقت انہیں دن کے پچیس روپے ملا کرتے تھے، دراصل ان تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی کا دارومدار محض شوق، کوشش اور محنت پر تھا۔ اس وقت کرکٹرز کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں، یہ اپنے ملک میں اور باہر لیگ کھیل کر خوب پیسہ کماتے ہیں، کمرشل اشتہارات سے علٰیحدہ آمدنی ہے۔
تبدیلیاں جسے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سید محسن رضا نقوی چھوٹی اور بڑی سرجری کہہ رہے ہیں، دنیا میں ہر ٹیم میں ہونا ایک معمول ہے، البتہ سفارشی کھلاڑی، نااہل خوشامدی انتظامیہ اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والے کرکٹ بورڈ چیئرمین کا تقرر بظاہر وہ اس بڑی سرجری کی آڑ میں کہ کر یہ سب چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ کارکردگی کے حوالے سے اکثر کھلاڑیوں کا تو کوئی قصور ہی نہیں، کھلاڑی تو اپنی استعداد کے مطابق ہی کھیلیں گے۔ ان سے استعداد سے زائد کی توقعات کے بجائے زائد صلاحیت والے کھلاڑیوں کو موقع دیجیے۔ جو کھلاڑی استعداد ہونے کے باوجود کارکردگی نہیں دکھا رہے ہیں، وجوہات جان کر ان کے ساتھ معاملات کیے جائیں۔ پلیر سپورٹنگ پرسنل کے نام پر جو نوکریاں بانٹی ہوئی ہیں ان کا از سر نو جائزہ لیں، بطور کوچ محب وطن سابقہ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔ میرٹ پر ٹیم بنائیں گے تو کھلاڑی بھی قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ کرکٹ کھیل تو مہارت اور محنت کا ہے لیکن نتیجہ قسمت کا ہی ہے، دل شکن حالات کے باوجود قوم اپنی ٹیم کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے، ہار جیت سے ہٹ کر کرکٹ بورڈ میں ہر سطح پر کڑا احتساب وقت کی ضرورت ہے، لیکن یہ احتساب کرے گا کون؟